وَلِلَّهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ فَادْعُوهُ بِهَا ۖ وَذَرُوا الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي أَسْمَائِهِ ۚ سَيُجْزَوْنَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ
اور سب سے اچھے نام اللہ ہی کے ہیں، سو اسے ان کے ساتھ پکارو اور ان لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کے ناموں کے بارے میں سیدھے راستے سے ہٹتے ہیں، انھیں جلد ہی اس کا بدلہ دیا جائے گا جو وہ کیا کرتے تھے۔
ف 3 اچھے ناموں سے مراد وہ نام ہیں جن سے اللہ تعالیٰ کی عظمت جلالت شان تقدس اور صفات کمال کا اظہار ہوتا ہے۔ علمانے اس ما حسنی کی تشریح اور ان کے ساتھ دعوت پر مستقل کتابیں لکھی ہیں۔ رازی کی اطوامع حلیمی کی المنہاج اور قرطبی کی الکتاب الا منی ٰ قابل دیدے ہیں۔ حضرت ابو ہریرہ (رض) کی ایک حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں جس نے انہیں شمار کیا، (یعنی ان کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کو پکارا) وہ جنت میں داخل ہوگیا، اللہ تعالیٰ وتر (طاق) ہے اور وتر کو پسند کرتا ہے۔ ( بخاری مسلم) یہاں تک تو یہ حدیث متواتر ہے، ترمذی کی ایک روایت میں ان موموں کی تصریح بھی کی گئی ہے مگر وہ نام علمانے بطور تشریح قرآن سے تر تیب نہیں ہیں ان ننانوے نا موں کے علاوہ اور نام بھی قرآن و حدیث میں مذکور ہیں۔ حاصل یہ کہ اللہ تعالیٰ کی ان ناموں کو ساتھ ہی پکار نا چاہیے اپنی طرف سے کوئی نام نہیں رکھنا چاہیے ( ملحض از ابن کثیر) ف 4 اس کے ناموں میں ایک بے دینی تو یہ ہے کہ ان ناموں کو بگاڑ کر بتوں کے نام رکھے جائیں جیسے اللات عزیٰ منات کہ یہ اللہ عزیز اور منان کی بگاڑی ہوئی شکلیں ہیں۔ ( ابن کثیر) اللہ تعالیٰ کے نام اپنی طرف سے رکھنا بھی الحاد میں داخل ہے۔ ( فتح القدیر) الحاد کے در اصل معنی کجروی کے ہیں اور امام رازی نے الحاد کی تین صورتیں لکھی ہیں۔ شاہ صاحب (رح) نے کجری کی ایک صورت یہ بھی لکھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اسمائے کو ٹونے ٹوٹکوں میں استعمال کیا جائے ایسے لوگوں کی دینوی مطلب اگرچہ حاصل ہوجاتا ہے مگر سزا انکو ضرور ملیگی) از مو ضح)