فَخَلَفَ مِن بَعْدِهِمْ خَلْفٌ وَرِثُوا الْكِتَابَ يَأْخُذُونَ عَرَضَ هَٰذَا الْأَدْنَىٰ وَيَقُولُونَ سَيُغْفَرُ لَنَا وَإِن يَأْتِهِمْ عَرَضٌ مِّثْلُهُ يَأْخُذُوهُ ۚ أَلَمْ يُؤْخَذْ عَلَيْهِم مِّيثَاقُ الْكِتَابِ أَن لَّا يَقُولُوا عَلَى اللَّهِ إِلَّا الْحَقَّ وَدَرَسُوا مَا فِيهِ ۗ وَالدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِّلَّذِينَ يَتَّقُونَ ۗ أَفَلَا تَعْقِلُونَ
پھر ان کے بعد ان کی جگہ نالائق جانشین آئے، جو کتاب کے وارث بنے، وہ اس حقیر دنیا کا سامان لیتے ہیں اور کہتے ہیں ہمیں ضرور بخش دیا جائے گا اور اگر ان کے پاس اس جیسا اور سامان آجائے تو اسے بھی لے لیں گے، کیا ان پر کتاب کا عہد نہیں لیا گیا کہ اللہ پر حق کے سوا کچھ نہ کہیں گے اور انھوں نے جو کچھ اس میں ہے پڑھ لیا ہے اور آخری گھر ان لوگوں کے لیے بہتر ہے جو ڈرتے ہیں، تو کیا تم نہیں سمجھتے؟
ف 7 اس لیے کہ ہم اس کے لاڈ لے بیٹے اور اس کے بر گزیدہ ابنیا کی اولاد ہیں۔ ف 8 یعنی گناہ کرنے کے بعد نہ وہ شر مندہ ہوتے ہیں اور نہ ان میں تو بہ کا جذبہ پیدا ہوتا ہے بلکہ گناہوں پر ان کی جرأت وبے باکی دن بدن بڑھتی ہی جاتی ہے، چنانچہ ایک مرتبہ رشوت لینے کے بعد جو نہی انہیں دوبارہ رشورت لینے کا موقع ملتا ہے وہ بلا جھجک اسے قبول کرلیتے ہیں، ان کے علما کایہ حال ہے لوگوں کو غلط مسئلے بتاتے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ ہماری بخشش ہوجائے گی حالانکہ پھر اسی کام کو حاضر رہتے ہیں۔ بخشش کی امید تو تب ہے جب پچھلی سرکشی اور گناہ سے باز رہیں۔ ( کذافی ابن کثیر) ف 9 یعنی یہ خوب جانتے ہیں کہ اللہ نے توراۃ میں کہیں یہ نہیں فرمایا کہ تم جو گناہ چاہو کرتے رہو تمہیں بخش دو گا مگر ان کی جرات اور بے خوفی کایہ علم ہے کہ گناہ بھی کئے جاتے ہیں اللہ کی آیات کو بیچ کر دنیا بھی کمائے جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف وہ باتیں بھی منسوب کئے جاتے ہیں جو اس نے کبھی نہیں کہیں۔ ( کذافی القرطبی)