أَبْوَابُ الْجَنَائِزِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ فِي كَفَنِ النَّبِيِّ ﷺ صحيح حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ كُفِّنَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ثَلَاثَةِ أَثْوَابٍ بِيضٍ يَمَانِيَةٍ لَيْسَ فِيهَا قَمِيصٌ وَلَا عِمَامَةٌ قَالَ فَذَكَرُوا لِعَائِشَةَ قَوْلَهُمْ فِي ثَوْبَيْنِ وَبُرْدِ حِبَرَةٍ فَقَالَتْ قَدْ أُتِيَ بِالْبُرْدِ وَلَكِنَّهُمْ رَدُّوهُ وَلَمْ يُكَفِّنُوهُ فِيهِ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ
کتاب: جنازے کے احکام ومسائل
نبی اکرم ﷺ کے کفن کا بیان
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: نبی اکرمﷺ کو تین سفید ۱؎ یمنی کپڑوں میں کفنایاگیا ۲؎ نہ ان میںقمیص ۳؎ تھی اور نہ عمامہ۔ لوگوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا: لوگ کہتے ہیں کہ آپﷺ کودوکپڑوں اورایک دھاری دار چادر میں کفنایا گیا تھا ؟ توام المومنین عائشہ نے کہا: چادر لائی گئی تھی لیکن لوگوں نے اسے واپس کردیاتھا،آپ کو اس میں نہیں کفنایا گیا تھا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تشریح :
۱؎ : تین سفید کپڑوں سے مراد تین بڑی چادریں ہیں اوربعض کے نزدیک کفنی، تہ بنداور بڑی چادر ہے ۔۲؎ : اس سے معلوم ہوا کہ کفن تین کپڑوں سے زیادہ مکروہ ہے بالخصوص عمامہ (پگڑی )جسے متاخرین حنفیہ اورمالکیہ نے رواج دیا ہے سراسر بدعت ہے رہی ابن عباس کی روایت جس میں ہے ' كفن رسول الله ﷺ في ثلاثة أثواب بحرانية: الحلة، ثوبان، وقميصه الذي مات فيه 'تو یہ منکرہے اس کے راوی یزیدبن ابی زیاد ضعیف ہیں، اسی طرح عبادہ بن صامت کی حدیث ' خير الكفن الحلة'بھی ضعیف ہے اس کے راوی نسي مجہول ہیں۔۳؎ : اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ کفن میں قمیص مستحب نہیں جمہورکا یہی قول ہے، لیکن مالکیہ اورحنفیہ استحباب کے قائل ہیں،وہ اس حدیث کا جواب یہ دیتے ہیں کہ اس میں احتمال یہ ہے کہ دونوں ہو اوریہ بھی احتمال ہے کہ شمارکی گئی چیزکی نفی ہو یعنی قمیص اورعمامہ ان تینوں میں شامل نہیں تھے بلکہ یہ دونوں زائد تھے، اس کا جواب یہ دیا جاتاہے کہ پہلا احتمال ہی صحیح ہے اوراس کا مطلب یہی ہے کفن میں قمیص اورعمامہ نہیں تھا۔
۱؎ : تین سفید کپڑوں سے مراد تین بڑی چادریں ہیں اوربعض کے نزدیک کفنی، تہ بنداور بڑی چادر ہے ۔۲؎ : اس سے معلوم ہوا کہ کفن تین کپڑوں سے زیادہ مکروہ ہے بالخصوص عمامہ (پگڑی )جسے متاخرین حنفیہ اورمالکیہ نے رواج دیا ہے سراسر بدعت ہے رہی ابن عباس کی روایت جس میں ہے ' كفن رسول الله ﷺ في ثلاثة أثواب بحرانية: الحلة، ثوبان، وقميصه الذي مات فيه 'تو یہ منکرہے اس کے راوی یزیدبن ابی زیاد ضعیف ہیں، اسی طرح عبادہ بن صامت کی حدیث ' خير الكفن الحلة'بھی ضعیف ہے اس کے راوی نسي مجہول ہیں۔۳؎ : اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ کفن میں قمیص مستحب نہیں جمہورکا یہی قول ہے، لیکن مالکیہ اورحنفیہ استحباب کے قائل ہیں،وہ اس حدیث کا جواب یہ دیتے ہیں کہ اس میں احتمال یہ ہے کہ دونوں ہو اوریہ بھی احتمال ہے کہ شمارکی گئی چیزکی نفی ہو یعنی قمیص اورعمامہ ان تینوں میں شامل نہیں تھے بلکہ یہ دونوں زائد تھے، اس کا جواب یہ دیا جاتاہے کہ پہلا احتمال ہی صحیح ہے اوراس کا مطلب یہی ہے کفن میں قمیص اورعمامہ نہیں تھا۔