جامع الترمذي - حدیث 990

أَبْوَابُ الْجَنَائِزِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ فِي غُسْلِ الْمَيِّتِ​ صحيح حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ أَخْبَرَنَا خَالِدٌ وَمَنْصُورٌ وَهِشَامٌ فَأَمَّا خَالِدٌ وَهِشَامٌ فَقَالَا عَنْ مُحَمَّدٍ وَحَفْصَةَ وَقَالَ مَنْصُورٌ عَنْ مُحَمَّدٍ عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ قَالَتْ تُوُفِّيَتْ إِحْدَى بَنَاتِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ اغْسِلْنَهَا وِتْرًا ثَلَاثًا أَوْ خَمْسًا أَوْ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ إِنْ رَأَيْتُنَّ وَاغْسِلْنَهَا بِمَاءٍ وَسِدْرٍ وَاجْعَلْنَ فِي الْآخِرَةِ كَافُورًا أَوْ شَيْئًا مِنْ كَافُورٍ فَإِذَا فَرَغْتُنَّ فَآذِنَّنِي فَلَمَّا فَرَغْنَا آذَنَّاهُ فَأَلْقَى إِلَيْنَا حِقْوَهُ فَقَالَ أَشْعِرْنَهَا بِهِ قَالَ هُشَيْمٌ وَفِي حَدِيثِ غَيْرِ هَؤُلَاءِ وَلَا أَدْرِي وَلَعَلَّ هِشَامًا مِنْهُمْ قَالَتْ وَضَفَّرْنَا شَعْرَهَا ثَلَاثَةَ قُرُونٍ قَالَ هُشَيْمٌ أَظُنُّهُ قَالَ فَأَلْقَيْنَاهُ خَلْفَهَا قَالَ هُشَيْمٌ فَحَدَّثَنَا خَالِدٌ مِنْ بَيْنِ الْقَوْمِ عَنْ حَفْصَةَ وَمُحَمَّدٍ عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ قَالَتْ وَقَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَابْدَأْنَ بِمَيَامِنِهَا وَمَوَاضِعِ الْوُضُوءِ وَفِي الْبَاب عَنْ أُمِّ سُلَيْمٍ قَالَ أَبُو عِيسَى حَدِيثُ أُمِّ عَطِيَّةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ أَنَّهُ قَالَ غُسْلُ الْمَيِّتِ كَالْغُسْلِ مِنْ الْجَنَابَةِ و قَالَ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ لَيْسَ لِغُسْلِ الْمَيِّتِ عِنْدَنَا حَدٌّ مُؤَقَّتٌ وَلَيْسَ لِذَلِكَ صِفَةٌ مَعْلُومَةٌ وَلَكِنْ يُطَهَّرُ و قَالَ الشَّافِعِيُّ إِنَّمَا قَالَ مَالِكٌ قَوْلًا مُجْمَلًا يُغَسَّلُ وَيُنْقَى وَإِذَا أُنْقِيَ الْمَيِّتُ بِمَاءٍ قَرَاحٍ أَوْ مَاءٍ غَيْرِهِ أَجْزَأَ ذَلِكَ مِنْ غُسْلِهِ وَلَكِنْ أَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ يُغْسَلَ ثَلَاثًا فَصَاعِدًا لَا يُقْصَرُ عَنْ ثَلَاثٍ لِمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اغْسِلْنَهَا ثَلَاثًا أَوْ خَمْسًا وَإِنْ أَنْقَوْا فِي أَقَلَّ مِنْ ثَلَاثِ مَرَّاتٍ أَجْزَأَ وَلَا نَرَى أَنَّ قَوْلَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا هُوَ عَلَى مَعْنَى الْإِنْقَاءِ ثَلَاثًا أَوْ خَمْسًا وَلَمْ يُؤَقِّتْ وَكَذَلِكَ قَالَ الْفُقَهَاءُ وَهُمْ أَعْلَمُ بِمَعَانِي الْحَدِيثِ و قَالَ أَحْمَدُ وَإِسْحَقُ وَتَكُونُ الْغَسَلَاتُ بِمَاءٍ وَسِدْرٍ وَيَكُونُ فِي الْآخِرَةِ شَيْءٌ مِنْ كَافُورٍ

ترجمہ جامع ترمذی - حدیث 990

کتاب: جنازے کے احکام ومسائل میت کو غسل دینے کا بیان​ ام عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : نبی اکرمﷺ کی ایک بیٹی ۱؎ کا انتقال ہوگیاتو آپ نے فرمایا:' اسے طاق بارغسل دو ،تین بار یا پانچ بار یا اس سے زیادہ بار، اگر ضروری سمجھو اور پانی اور بیر کی پتی سے غسل دو، آخر میں کافور ملالینا '، یافرمایا: 'تھوڑا ساکافور ملالینا اور جب تم غسل سے فارغ ہوجاؤ تو مجھے اطلاع دینا۔' چنانچہ جب ہم (نہلاکر) فارغ ہوگئے ،توہم نے آپ کو اطلاع دی، آپ نے اپنا تہبند ہماری طرف ڈال دیا اور فرمایا:' اسے اس کے بدن سے لپیٹ دو'۔ ہشیم کہتے ہیں کہ اوردوسرے لوگوں ۲؎ کی روایتوں میں ، مجھے نہیں معلوم شاید ہشام بھی انہیں میں سے ہوں ، یہ ہے کہ انہوں نے کہا: اور ہم نے ان کے بالوں کو تین چوٹیوں میں گوندھ دیا۔ہشیم کہتے ہیں: میرا گمان ہے کہ ان کی روایتوں میں یہ بھی ہے کہ پھرہم نے ان چوٹیوں کو ان کے پیچھے ڈال دیا ۳؎ ہشیم کہتے ہیں: پھر خالد نے ہم سے لوگوں کے سامنے بیان کیا وہ حفصہ اور محمد سے روایت کررہے تھے اور یہ دونوں ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے کہ وہ کہتی ہیں کہ ہم سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ' پہلے ان کے داہنے سے اور وضو کے اعضاء سے شروع کرنا' ۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ام عطیہ رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ام سلیم رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے، ۳- اہل علم کا اسی پرعمل ہے،۴- ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ میت کا غسل غسل جنابت کی طرح ہے،۵- مالک بن انس کہتے ہیں: ہمارے نزدیک میت کے غسل کی کوئی متعین حد نہیں اور نہ ہی کوئی متعین کیفیت ہے، بس اُسے پاک کردیاجائے گا،۶- شافعی کہتے ہیں کہ مالک کاقول کہ اسے غسل دیاجائے اور پاک کیا جائے مجمل ہے، جب میت بیری یاکسی اور چیز کے پانی سے پاک کردیا جائے تو بس اتنا کافی ہے، البتہ میرے نزدیک مستحب یہ ہے کہ اسے تین یا اس سے زیادہ بار غسل دیاجائے۔تین بار سے کم غسل نہ دیاجائے ، اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاہے ' اسے تین بار یاپانچ بار غسل دو'، اور اگر لوگ اسے تین سے کم مرتبہ میں ہی پاک صاف کردیں تو یہ بھی کافی ہے ، ہم یہ نہیں سمجھتے ہیں کہ نبی اکرمﷺکا تین یا پانچ بار کا حکم دینامحض پاک کرنے کے لیے ہے، آپ نے کوئی حدمقررنہیں کی ہے، ایسے ہی دوسرے فقہا ء نے بھی کہاہے۔ وہ حدیث کے مفہوم کوخوب جاننے والے ہیں،۷- احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: ہرمرتبہ غسل پانی اور بیری کی پتی سے ہوگا، البتہ آخری بار اس میں کافور ملالیں گے۔
تشریح : ۱؎ : جمہورکے قول کے مطابق یہ ابوالعاص بن ربیع کی بیوی زینب رضی اللہ عنہا تھیں، ایک قول یہ ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ کی اہلیہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا تھیں، صحیح پہلاقول ہی ہے۔۲؎ : یعنی خالد، منصوراورہشام کے علاوہ دوسرے لوگوں کی روایتوں میں۔۳؎ : اس سے معلوم ہوا کہ عورت کے بالوں کی تین چوٹیاں کر کے انہیں پیچھے ڈال دیناچاہئے انہیں دوحصوں میں تقسیم کرکے سینے پر ڈالنے کا کوئی ثبوت نہیں۔ ۱؎ : جمہورکے قول کے مطابق یہ ابوالعاص بن ربیع کی بیوی زینب رضی اللہ عنہا تھیں، ایک قول یہ ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ کی اہلیہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا تھیں، صحیح پہلاقول ہی ہے۔۲؎ : یعنی خالد، منصوراورہشام کے علاوہ دوسرے لوگوں کی روایتوں میں۔۳؎ : اس سے معلوم ہوا کہ عورت کے بالوں کی تین چوٹیاں کر کے انہیں پیچھے ڈال دیناچاہئے انہیں دوحصوں میں تقسیم کرکے سینے پر ڈالنے کا کوئی ثبوت نہیں۔