أَبْوَابُ الْجَنَائِزِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ النَّعْيِ ضعيف دَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَانِ الْمَخْزُومِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ الْوَلِيدِ الْعَدَنِيُّ، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنْ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِاللهِ، نَحْوَهُ. وَلَمْ يَرْفَعْهُ. وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ وَالنَّعْيُ أَذَانٌ بِالْمَيِّتِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ عَنْبَسَةَ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ، وَأَبُو حَمْزَةَ. هُوَ مَيْمُونٌ الأَعْوَرُ. وَلَيْسَ هُوَ بِالْقَوِيِّ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَبْدِاللهِ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ. وَقَدْ كَرِهَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ النَّعْيَ. وَالنَّعْيُ عِنْدَهُمْ أَنْ يُنَادَى فِي النَّاسِ أَنَّ فُلاَنًا مَاتَ، لِيَشْهَدُوا جَنَازَتَهُ. و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: لاَ بَأْسَ أَنْ يُعْلِمَ أَهْلَ قَرَابَتِهِ وَإِخْوَانَهُ. وَرُوِيَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ أَنَّهُ قَالَ: لاَ بَأْسَ بِأَنْ يُعْلِمَ الرَّجُلُ قَرَابَتَهُ.
کتاب: جنازے کے احکام ومسائل موت کی خبر دینے کی کراہت اس سند سے بھی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے اسی طرح مروی ہے، اورراوی نے اسے مرفوع نہیں کیا ہے۔ اور اس نے اس میں اس کا بھی ذکرنہیں کیا ہے کہ' نعی موت کے اعلان کانام ہے'۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن غریب ہے،۲- یہ عنبسہ کی حدیث سے جسے انہوں نے ابوحمزہ سے روایت کیا ہے زیادہ صحیح ہے،۳- ابوحمزہ ہی میمون اعور ہیں،یہ اہل حدیث کے نزدیک قوی نہیں ہیں،۴- بعض اہل علم نے نعی کو مکروہ قراردیاہے، ان کے نزدیک نعی یہ ہے کہ لوگوں میں اعلان کیاجائے کہ فلاں مرگیا ہے تاکہ اس کے جنازے میں شرکت کریں،۵- بعض اہل علم کہتے ہیں: اس میں کوئی حرج نہیں کہ اس کے رشتے داروں اور اس کے بھائیوں کواس کے مرنے کی خبردی جائے، ۶ - ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ اس میں کوئی حرج نہیں کہ آدمی کواس کے اپنے کسی قرابت دارکے مرنے کی خبردی جائے۔