جامع الترمذي - حدیث 959

أَبْوَابُ الحَجِّ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ فِي اسْتِلاَمِ الرُّكْنَيْنِ​ صحيح حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ ابْنِ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ كَانَ يُزَاحِمُ عَلَى الرُّكْنَيْنِ زِحَامًا مَا رَأَيْتُ أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْعَلُهُ فَقُلْتُ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ إِنَّكَ تُزَاحِمُ عَلَى الرُّكْنَيْنِ زِحَامًا مَا رَأَيْتُ أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُزَاحِمُ عَلَيْهِ فَقَالَ إِنْ أَفْعَلْ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّ مَسْحَهُمَا كَفَّارَةٌ لِلْخَطَايَا وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ مَنْ طَافَ بِهَذَا الْبَيْتِ أُسْبُوعًا فَأَحْصَاهُ كَانَ كَعِتْقِ رَقَبَةٍ وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ لَا يَضَعُ قَدَمًا وَلَا يَرْفَعُ أُخْرَى إِلَّا حَطَّ اللَّهُ عَنْهُ خَطِيئَةً وَكَتَبَ لَهُ بِهَا حَسَنَةً قَالَ أَبُو عِيسَى وَرَوَى حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ ابْنِ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ نَحْوَهُ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ أَبِيهِ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ

ترجمہ جامع ترمذی - حدیث 959

کتاب: حج کے احکام ومسائل حجر اسود اور رکن یمانی کو چھونے کے بیان میں عبید بن عمیر کہتے ہیں: ابن عمر رضی اللہ عنہا حجراسوداوررکن یمانی پرایسی بھیڑلگاتے تھے جو میں نے صحابہ میں سے کسی کو کرتے نہیں دیکھا۔ تومیں نے پوچھا: ابوعبدالرحمن ! آپ دونوں رکن پرایسی بھیڑلگاتے ہیں کہ میں نے صحابہ میں سے کسی کو ایسا کرتے نہیں دیکھا؟ توانہوں نے کہا: اگر میں ایساکرتاہوں تو اس لیے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سناہے: ' ان پر ہاتھ پھیر نا گناہوں کا کفارہ ہے۔'اور میں نے آپ کو فرماتے سناہے: ' جس نے اس گھر کاطواف سات مرتبہ (سات چکر) کیا اور اسے گنا، تو یہ ایسے ہی ہے گویا اس نے ایک غلام آزاد کیا۔' اور میں نے آپ کو فرماتے سناہے: ' وہ جتنے بھی قدم رکھے اور اٹھائے گا اللہ ہرایک کے بدلے اس کی ایک غلطی معاف کرے گا اورایک نیکی لکھے گا ' ۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن ہے،۲- حماد بن زید نے بطریق : 'عطا بن السائب، عن ابن عبید بن عمیر، عن ابن عمر' روایت کی ہے اوراس میں انہوں نے ابن عبیدکے باپ کے واسطے کا ذکرنہیں کیاہے۔