أَبْوَابُ الحَجِّ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ فِي طَوَافِ الزِّيَارَةِ بِاللَّيْلِ شاذ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَعَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخَّرَ طَوَافَ الزِّيَارَةِ إِلَى اللَّيْلِ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي أَنْ يُؤَخَّرَ طَوَافُ الزِّيَارَةِ إِلَى اللَّيْلِ وَاسْتَحَبَّ بَعْضُهُمْ أَنْ يَزُورَ يَوْمَ النَّحْرِ وَوَسَّعَ بَعْضُهُمْ أَنْ يُؤَخَّرَ وَلَوْ إِلَى آخِرِ أَيَّامِ مِنًى
کتاب: حج کے احکام ومسائل
طوافِ زیارت رات میں کرنے کا بیان
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا اور ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے طواف زیارت کو رات تک مؤخر کیا ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے ۲؎ ، ۲- بعض اہل علم نے طواف زیارت کورات تک مؤخر کرنے کی اجازت دی ہے۔ اور بعض نے دسویں ذی الحجہ کو طواف زیارت کرنے کومستحب قراردیاہے، لیکن بعض نے اُسے منیٰ کے آخری دن تک مؤخرکرنے کی گنجائش رکھی ہے۔
تشریح :
۱؎ عبداللہ بن عباس اورعائشہ رضی اللہ عنہم کی یہ حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہا کی حدیث کے مخالف ہے جسے بخاری ومسلم نے روایت کی ہے، جس میں ہے کہ نبی اکرمﷺ نے یوم النحرکو دن میں طواف کیا، امام بخاری نے دونوں میں تطبیق اس طرح دی ہے کہ ابن عمر اور جابر کی حدیث کو پہلے دن پر محمول کیاجائے اورابن عباس اورعائشہ کی حدیث کو اس کے علاوہ باقی دنوں پر،صاحب تحفۃ الأحوذی فرماتے ہیں :'حديث ابن عباس وعائشة المذكور في هذا الباب ضعيف فلا حاجة إلى الجمع الذي أشار إليه البخاري، وأما على تقدير الصحة فهذا الجمع متعين '۔(ابن عباس اورعائشہ کی باب میں مذکورحدیث ضعیف ہے ، اس لیے بخاری نے جس جمع وتطبیق کی طرف اشارہ کیاہے اس کی ضرورت نہیں ہے اور صحت ماننے کی صورت میں جمع وتطبیق متعین ہے) ۲؎ امام ترمذی کا اس حدیث کو حسن صحیح کہنا درست نہیں ہے، صحیح یہ ہے کہ یہ حدیث قابل استدلال نہیں، کیونکہ ابوالزبیرکا ابن عباس سے اورعائشہ رضی اللہ عنہا سے سماع نہیں ہے، ابوالحسن القطان کہتے ہیں 'عندي أن هذا الحديث ليس بصحيح إنما طاف النبي ﷺ يومئذ نهاراً '۔
نوٹ:(ابوالزبیرمدلس ہیں اور روایت عنعنہ سے ہے، نیز ابوالزبیر کا دونوں صحابہ سے سماع نہیں ہے، اوریہ حدیث اس صحیح حدیث کے خلاف ہے کہ نبی اکرمﷺ نے دن میں طواف زیارت فرمایاتھا، اس لیے شاذ ہے)۔
۱؎ عبداللہ بن عباس اورعائشہ رضی اللہ عنہم کی یہ حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہا کی حدیث کے مخالف ہے جسے بخاری ومسلم نے روایت کی ہے، جس میں ہے کہ نبی اکرمﷺ نے یوم النحرکو دن میں طواف کیا، امام بخاری نے دونوں میں تطبیق اس طرح دی ہے کہ ابن عمر اور جابر کی حدیث کو پہلے دن پر محمول کیاجائے اورابن عباس اورعائشہ کی حدیث کو اس کے علاوہ باقی دنوں پر،صاحب تحفۃ الأحوذی فرماتے ہیں :'حديث ابن عباس وعائشة المذكور في هذا الباب ضعيف فلا حاجة إلى الجمع الذي أشار إليه البخاري، وأما على تقدير الصحة فهذا الجمع متعين '۔(ابن عباس اورعائشہ کی باب میں مذکورحدیث ضعیف ہے ، اس لیے بخاری نے جس جمع وتطبیق کی طرف اشارہ کیاہے اس کی ضرورت نہیں ہے اور صحت ماننے کی صورت میں جمع وتطبیق متعین ہے) ۲؎ امام ترمذی کا اس حدیث کو حسن صحیح کہنا درست نہیں ہے، صحیح یہ ہے کہ یہ حدیث قابل استدلال نہیں، کیونکہ ابوالزبیرکا ابن عباس سے اورعائشہ رضی اللہ عنہا سے سماع نہیں ہے، ابوالحسن القطان کہتے ہیں 'عندي أن هذا الحديث ليس بصحيح إنما طاف النبي ﷺ يومئذ نهاراً '۔
نوٹ:(ابوالزبیرمدلس ہیں اور روایت عنعنہ سے ہے، نیز ابوالزبیر کا دونوں صحابہ سے سماع نہیں ہے، اوریہ حدیث اس صحیح حدیث کے خلاف ہے کہ نبی اکرمﷺ نے دن میں طواف زیارت فرمایاتھا، اس لیے شاذ ہے)۔