أَبْوَابُ الحَجِّ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ فِي رَمْيِ يَوْمِ النَّحْرِ ضُحًى صحيح حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْمِي يَوْمَ النَّحْرِ ضُحًى وَأَمَّا بَعْدَ ذَلِكَ فَبَعْدَ زَوَالِ الشَّمْسِ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّهُ لَا يَرْمِي بَعْدَ يَوْمِ النَّحْرِ إِلَّا بَعْدَ الزَّوَالِ
کتاب: حج کے احکام ومسائل
قربانی کے دن چاشت کے وقت رمی کرنے کا بیان
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ دسویں ذی الحجہ کو(ٹھنڈی) چاشت کے وقت رمی کرتے تھے اور اس کے بعد زوال کے بعد کرتے ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اکثر اہل علم کااسی حدیث پر عمل ہے کہ وہ دسویں ذی الحجہ کے زوال بعد کے بعد ہی رمی کرے ۔
تشریح :
۱؎ : اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ سنت یہی ہے کہ یوم النحر(دسویں ذوالحجہ ، قربانی والے دن) کے علاوہ دوسرے، گیارہ اور بارہ والے دنوں میں رمی سورج ڈھلنے کے بعدکی جائے، یہی جمہورکا قول ہے اورعطاء وطاوس نے اسے زوال سے پہلے مطلقاً جائزکہا ہے، اورحنفیہ نے کوچ کے دن زوال سے پہلے رمی کی رخصت دی ہے، عطاء وطاؤس کے قول پرنبی اکرمﷺ کے فعل وقول سے کوئی دلیل نہیں ہے، البتہ حنفیہ نے اپنے قول پرابن عباس کے ایک اثرسے استدلال کیاہے، لیکن وہ اثر ضعیف ہے اس لیے جمہورہی کا قول قابل اعتمادہے۔
۱؎ : اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ سنت یہی ہے کہ یوم النحر(دسویں ذوالحجہ ، قربانی والے دن) کے علاوہ دوسرے، گیارہ اور بارہ والے دنوں میں رمی سورج ڈھلنے کے بعدکی جائے، یہی جمہورکا قول ہے اورعطاء وطاوس نے اسے زوال سے پہلے مطلقاً جائزکہا ہے، اورحنفیہ نے کوچ کے دن زوال سے پہلے رمی کی رخصت دی ہے، عطاء وطاؤس کے قول پرنبی اکرمﷺ کے فعل وقول سے کوئی دلیل نہیں ہے، البتہ حنفیہ نے اپنے قول پرابن عباس کے ایک اثرسے استدلال کیاہے، لیکن وہ اثر ضعیف ہے اس لیے جمہورہی کا قول قابل اعتمادہے۔