أَبْوَابُ الحَجِّ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ أَنَّ عَرَفَةَ كُلَّهَا مَوْقِفٌ حسن حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَيَّاشِ بْنِ أَبِي رَبِيعَةَ عَنْ زَيْدِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ وَقَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَرَفَةَ فَقَالَ هَذِهِ عَرَفَةُ وَهَذَا هُوَ الْمَوْقِفُ وَعَرَفَةُ كُلُّهَا مَوْقِفٌ ثُمَّ أَفَاضَ حِينَ غَرَبَتْ الشَّمْسُ وَأَرْدَفَ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ وَجَعَلَ يُشِيرُ بِيَدِهِ عَلَى هِينَتِهِ وَالنَّاسُ يَضْرِبُونَ يَمِينًا وَشِمَالًا يَلْتَفِتُ إِلَيْهِمْ وَيَقُولُ يَا أَيُّهَا النَّاسُ عَلَيْكُمْ السَّكِينَةَ ثُمَّ أَتَى جَمْعًا فَصَلَّى بِهِمْ الصَّلَاتَيْنِ جَمِيعًا فَلَمَّا أَصْبَحَ أَتَى قُزَحَ فَوَقَفَ عَلَيْهِ وَقَالَ هَذَا قُزَحُ وَهُوَ الْمَوْقِفُ وَجَمْعٌ كُلُّهَا مَوْقِفٌ ثُمَّ أَفَاضَ حَتَّى انْتَهَى إِلَى وَادِي مُحَسِّرٍ فَقَرَعَ نَاقَتَهُ فَخَبَّتْ حَتَّى جَاوَزَ الْوَادِيَ فَوَقَفَ وَأَرْدَفَ الْفَضْلَ ثُمَّ أَتَى الْجَمْرَةَ فَرَمَاهَا ثُمَّ أَتَى الْمَنْحَرَ فَقَالَ هَذَا الْمَنْحَرُ وَمِنًى كُلُّهَا مَنْحَرٌ وَاسْتَفْتَتْهُ جَارِيَةٌ شَابَّةٌ مِنْ خَثْعَمٍ فَقَالَتْ إِنَّ أَبِي شَيْخٌ كَبِيرٌ قَدْ أَدْرَكَتْهُ فَرِيضَةُ اللَّهِ فِي الْحَجِّ أَفَيُجْزِئُ أَنْ أَحُجَّ عَنْهُ قَالَ حُجِّي عَنْ أَبِيكِ قَالَ وَلَوَى عُنُقَ الْفَضْلِ فَقَالَ الْعَبَّاسُ يَا رَسُولَ اللَّهِ لِمَ لَوَيْتَ عُنُقَ ابْنِ عَمِّكَ قَالَ رَأَيْتُ شَابًّا وَشَابَّةً فَلَمْ آمَنْ الشَّيْطَانَ عَلَيْهِمَا ثُمَّ أَتَاهُ رَجُلٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي أَفَضْتُ قَبْلَ أَنْ أَحْلِقَ قَالَ احْلِقْ أَوْ قَصِّرْ وَلَا حَرَجَ قَالَ وَجَاءَ آخَرُ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي ذَبَحْتُ قَبْلَ أَنْ أَرْمِيَ قَالَ ارْمِ وَلَا حَرَجَ قَالَ ثُمَّ أَتَى الْبَيْتَ فَطَافَ بِهِ ثُمَّ أَتَى زَمْزَمَ فَقَالَ يَا بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ لَوْلَا أَنْ يَغْلِبَكُمْ النَّاسُ عَنْهُ لَنَزَعْتُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ قَالَ أَبُو عِيسَى حَدِيثُ عَلِيٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ لَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ عَلِيٍّ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَيَّاشٍ وَقَدْ رَوَاهُ غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ الثَّوْرِيِّ مِثْلَ هَذَا وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ رَأَوْا أَنْ يُجْمَعَ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ بِعَرَفَةَ فِي وَقْتِ الظُّهْرِ و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِذَا صَلَّى الرَّجُلُ فِي رَحْلِهِ وَلَمْ يَشْهَدْ الصَّلَاةَ مَعَ الْإِمَامِ إِنْ شَاءَ جَمَعَ هُوَ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ مِثْلَ مَا صَنَعَ الْإِمَامُ قَالَ وَزَيْدُ بْنُ عَلِيٍّ هُوَ ابْنُ حُسَيْنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ عَلَيْهِ السَّلَام
کتاب: حج کے احکام ومسائل
پورا عرفات ٹھہر نے کی جگہ ہے
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے عرفات میں قیام کیا اور فرمایا:' یہ عرفہ ہے، یہی وقوف ( ٹھہرنے) کی جگہ ہے، عرفہ (عرفات) کاپوراٹھہر نے کی جگہ ہے، پھر آپ جس وقت سورج ڈوب گیا تووہاں سے لوٹے۔اسامہ بن زید کو پیچھے بٹھایا، اورآپ اپنی عام رفتارسے چلتے ہوئے اپنے ہاتھ سے اشارہ کر رہے تھے، اور لوگ دائیں بائیں اپنے اونٹوں کو مار رہے تھے، آپ ان کی طرف متوجہ ہوکرکہتے جاتے تھے:' لوگو! سکون ووقار کولازم پکڑو'، پھر آپ مزدلفہ آئے اورلوگوں کو دونوں صلاتیں(مغرب اورعشاء قصرکرکے ) ایک ساتھ پڑھائیں، جب صبح ہوئی توآپ قزح ۱؎ آکرٹھہرے،اور فرمایا:' یہ قزح ہے اوریہ بھی موقف ہے اورمزدلفہ پورا کاپورا موقف ہے'، پھرآپ لوٹے یہاں تک کہ آپ وادی محسر ۲؎ پہنچے اور آپ نے اپنی اونٹنی کو مارا تو وہ دوڑی یہاں تک کہ اس نے وادی پارکرلی، پھر آپ نے وقوف کیا۔ اورفضل بن عباس رضی اللہ عنہا کو(اونٹنی پر) پیچھے بٹھایا ، پھرآپ جمرہ آئے اور رمی کی، پھر منحر (قربانی کی جگہ) آئے اور فرمایا:' یہ منحر ہے، اور منیٰ پورا کاپورا منحر(قربانی کرنے کی جگہ) ہے ، قبیلہ خثعم کی ایک نوجوان عورت نے آپ سے مسئلہ پوچھا ،اس نے عرض کیا: میرے والدبوڑھے ہوچکے ہیں اور ان پر اللہ کا فریضہ حج واجب ہوچُکاہے۔ کیا میں ان کی طرف سے حج کرلوں توکافی ہوگا؟ آپ ﷺ نے فرمایا:'ہاں، اپنے باپ کی طرف سے حج کرلے'۔
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: آپﷺ نے فضل کی گردن موڑدی، اس پر آپ سے، عباس رضی اللہ عنہ نے پوچھا: اللہ کے رسول!آپ نے اپنے چچازاد بھائی کی گردن کیوں پلٹ دی؟ توآپ نے فرمایا :' میں نے دیکھا کہ لڑکا اور لڑکی دونوں جوان ہیں تومیں ان دونوں کے سلسلہ میں شیطان سے مامون نہیں رہا'۳؎ ، پھر ایک شخص نے آپ کے پاس آکرکہا: اللہ کے رسول ! میں نے سرمنڈا نے سے پہلے طواف افاضہ کرلیا۔ آپ نے فرمایا:' سرمنڈوالو یابال کتروالو کوئی حرج نہیں ہے'۔پھرایک دوسرے شخص نے آکرکہا: اللہ کے رسول! میں نے رمی کرنے سے پہلے قربانی کرلی، آپ نے فرمایا: 'رمی کرلو کوئی حرج نہیں ۴؎ پھر آپ بیت اللہ آئے اور اس کا طواف کیا، پھر زمزم پرآئے ،اور فرمایا:' بنی عبدالمطلب ! اگریہ اندیشہ نہ ہوتا کہ لوگ تمہیں مغلوب کردیں گے تو میں بھی (تمہارے ساتھ) پانی کھینچتا'۔(اورلوگوں کوپلاتے)
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- علی رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے۔ ہم اسے علی کی روایت سے صرف اسی طریق سے جانتے ہیں۔ یعنی عبدالرحمن بن حارث بن عیاش کی سند سے ، اور دیگر کئی لوگوں نے بھی ثوری سے اسی کے مثل روایت کی ہے،۲- اس باب میں جابر رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے، ۳- اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ان کا خیال ہے کہ عرفہ میں ظہر کے وقت ظہراورعصرکو ملاکرایک ساتھ پڑھے،۴- اوربعض اہل علم کہتے ہیں: جب آدمی اپنے ڈیرے (خیمے) میں صلاۃ پڑھے اورامام کے ساتھ صلاۃ میں شریک نہ ہو تو چاہے دونوں صلاتوں کو ایک ساتھ جمع اورقصرکرکے پڑھ لے، جیساکہ امام نے کیاہے۔
تشریح :
۱؎ : مزدلفہ میں ایک پہاڑکانام ہے۔ ۲؎ : منیٰ اورمزدلفہ کے درمیان ایک وادی ہے جس میں اصحاب فیل پرعذاب آیاتھا۔۳؎ : یعنی: مجھے اندیشہ ہوا کہ فضل جب نوجوان لڑکی کی طرف سے ملتفت تھے، شیطان ان کوبہکانہ دے۔۴؎ : حاجی کو دسویں ذوالحجہ میں چارکام کرنے پڑتے ہیں ،۱-جمرئہ عقبیٰ کی رمی۲- نحرہدی (جانورذبح کرنا) ۳- حلق یا قصر۴-طواف افاضہ، ان چاروں میں ترتیب افضل ہے، اوراگرکسی وجہ سے ترتیب قائم نہ رہ سکے تو اس سے دم لازم نہیں ہوگا اور نہ ہی حج میں کوئی حرج واقع ہوگاجب کہبعض نے کہا کہ حرج تو کچھ نہیں ہوگا لیکن دم لازم آئے گا ۔مگراُن کے پاس نص صریح میں سے کوئی دلیل نہیں ہے۔
۱؎ : مزدلفہ میں ایک پہاڑکانام ہے۔ ۲؎ : منیٰ اورمزدلفہ کے درمیان ایک وادی ہے جس میں اصحاب فیل پرعذاب آیاتھا۔۳؎ : یعنی: مجھے اندیشہ ہوا کہ فضل جب نوجوان لڑکی کی طرف سے ملتفت تھے، شیطان ان کوبہکانہ دے۔۴؎ : حاجی کو دسویں ذوالحجہ میں چارکام کرنے پڑتے ہیں ،۱-جمرئہ عقبیٰ کی رمی۲- نحرہدی (جانورذبح کرنا) ۳- حلق یا قصر۴-طواف افاضہ، ان چاروں میں ترتیب افضل ہے، اوراگرکسی وجہ سے ترتیب قائم نہ رہ سکے تو اس سے دم لازم نہیں ہوگا اور نہ ہی حج میں کوئی حرج واقع ہوگاجب کہبعض نے کہا کہ حرج تو کچھ نہیں ہوگا لیکن دم لازم آئے گا ۔مگراُن کے پاس نص صریح میں سے کوئی دلیل نہیں ہے۔