أَبْوَابُ الحَجِّ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ كَيْفَ الطَّوَافُ صحيح حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ لَمَّا قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَّةَ دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَاسْتَلَمَ الْحَجَرَ ثُمَّ مَضَى عَلَى يَمِينِهِ فَرَمَلَ ثَلَاثًا وَمَشَى أَرْبَعًا ثُمَّ أَتَى الْمَقَامَ فَقَالَ وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ وَالْمَقَامُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْبَيْتِ ثُمَّ أَتَى الْحَجَرَ بَعْدَ الرَّكْعَتَيْنِ فَاسْتَلَمَهُ ثُمَّ خَرَجَ إِلَى الصَّفَا أَظُنُّهُ قَالَ إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ أَبُو عِيسَى حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ
کتاب: حج کے احکام ومسائل
طواف کی کیفیت کابیان
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب نبی اکرمﷺ مکہ آئے توآپ مسجدحرام میں داخل ہوئے، اور حجر اسود کا بوسہ لیا، پھراپنے دائین جانب چلے آپ نے تین چکر میں رمل کیا ۱؎ اور چارچکرمیں عام چال چلے۔ پھر آپ نے مقام ابراہیم کے پاس آکرفرمایا:' مقام ابراہیم کوصلاۃ پڑھنے کی جگہ بناؤ'،چنانچہ آپ نے دورکعت صلاۃ پڑھی، اور مقام ابراہیم آپ کے اور بیت اللہ کے درمیان تھا۔ پھر دورکعت کے بعد حجر اسودکے پاس آکر اس کا استلام کیا۔پھر صفا کی طرف گئے ۔ میراخیال ہے کہ (وہاں) آپ نے یہ آیت پڑھی : {إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّہِ} (صفااورمروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں)۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن عمر رضی اللہ عنہا سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اہل علم کااسی پرعمل ہے۔
تشریح :
۱؎ : رمل یعنی اکڑکرمونڈھاہلاتے ہوئے چلنا جیسے سپاہی جنگ کے لیے چلتاہے، یہ طواف کعبہ کے پہلے تین پھیروں میں سنت ہے، نبی اکرمﷺ نے مسلمانوں کو یہ حکم اس لیے دیاتھا کہ وہ کافروں کے سامنے اپنے طاقت وراورتواناہو نے کامظاہرہ کرسکیں،کیونکہ وہ اس غلط فہمی میں مبتلاتھے کہ مدینہ کے بخارنے انہیں کمزور کردیا ہے۔
۱؎ : رمل یعنی اکڑکرمونڈھاہلاتے ہوئے چلنا جیسے سپاہی جنگ کے لیے چلتاہے، یہ طواف کعبہ کے پہلے تین پھیروں میں سنت ہے، نبی اکرمﷺ نے مسلمانوں کو یہ حکم اس لیے دیاتھا کہ وہ کافروں کے سامنے اپنے طاقت وراورتواناہو نے کامظاہرہ کرسکیں،کیونکہ وہ اس غلط فہمی میں مبتلاتھے کہ مدینہ کے بخارنے انہیں کمزور کردیا ہے۔