أَبْوَابُ الحَجِّ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ فِيمَا لاَ يَجُوزُ لِلْمُحْرِمِ لُبْسُهُ صحيح حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّهُ قَالَ قَامَ رَجُلٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَاذَا تَأْمُرُنَا أَنْ نَلْبَسَ مِنْ الثِّيَابِ فِي الْحَرَمِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَلْبَسُوا الْقُمُصَ وَلَا السَّرَاوِيلَاتِ وَلَا الْبَرَانِسَ وَلَا الْعَمَائِمَ وَلَا الْخِفَافَ إِلَّا أَنْ يَكُونَ أَحَدٌ لَيْسَتْ لَهُ نَعْلَانِ فَلْيَلْبَسْ الْخُفَّيْنِ وَلْيَقْطَعْهُمَا مَا أَسْفَلَ مِنْ الْكَعْبَيْنِ وَلَا تَلْبَسُوا شَيْئًا مِنْ الثِّيَابِ مَسَّهُ الزَّعْفَرَانُ وَلَا الْوَرْسُ وَلَا تَنْتَقِبْ الْمَرْأَةُ الْحَرَامُ وَلَا تَلْبَسْ الْقُفَّازَيْنِ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ
کتاب: حج کے احکام ومسائل
محرم کے لیے جن چیزوں کا پہننا جائزنہیں ان کابیان
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص نے کھڑ ہوکرعرض کیا: اللہ کے رسول! آپ ہمیں احرام میں کون کون سے کپڑے پہننے کاحکم دیتے ہیں؟رسول اللہﷺ نے فرمایا:'نہ قمیص پہنو، نہ پاجامے ، نہ عمامے اور نہ موزے، الا یہ کہ کسی کے پاس جو تے نہ ہوں تووہ خف( چمڑے کے موزے) پہنے اوراسے کاٹ کرٹخنے سے نیچے کرلے ۱؎ اورنہ ایساکوئی کپڑا پہنو جس میں زعفران یاورس لگا ہو ۲؎ ،اور محرم عورت نقاب نہ لگائے اور نہ دستانے پہنے' ۳؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اہل علم اسی پرعمل ہے۔
تشریح :
۱؎ : جمہورنے اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے خف(چمڑے کے موزوں) کے کاٹنے کی شرط لگائی ہے لیکن امام احمد نے بغیرکاٹے خف (موزہ) پہننے کوجائزقرار دیاہے کیونکہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت 'من لم يجد نعلين فليلبس خفين ' جوبخاری میں آئی ہے مطلق ہے، لیکن جمہورنے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ یہاں مطلق کو مقید پرمحمول کیاجائے گا، حنابلہ نے اس روایت کے کئی جوابات دیئے ہیں جن میں ایک یہ ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کی یہ روایت منسوخ ہے کیونکہ یہ احرام سے پہلے مدینہ کا واقعہ ہے اور ابن عباس رضی اللہ عنہا کی روایت عرفات کی ہے، اس کا جواب یہ دیاگیا ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہا کی روایت حجت کے اعتبارسے ابن عباس کی روایت سے بڑھی ہوئی ہے کیونکہ وہ ایسی سند سے مروی ہے جو أصح الاسانید ہے۔۲؎ : ایک زردرنگ کی خوشبودارگھاس ہے جس سے کپڑے رنگے جاتے تھے،اس بات پراجماع ہے کہ حالتِ احرام میں مردکے لیے حدیث میں مذکوریہ کپڑے پہننے جائزنہیں ہیں، قمیص اورسراویل(پاجانے) میں تمام سلے ہوے کپڑے داخل ہیں، اسی طرح عمامہ اورخفین سے ہروہ چیز مرادہے جو سر اورقدم کو ڈھانپ لے، البتہ پانی میں سر کو ڈبونے یا ہاتھ یا چھتری سے سر کو چھپانے میں کوئی حرج نہیں،عورت کے لیے حالت احرام میں وہ تمام کپڑے پہننے جائزہیں جن کا اس حدیث میں ذکرہے البتہ وہ ورس اورزعفران میں رنگے ہوئے کپڑ ے نہ پہننے ۔ ۳؎ : محرم عورت کے لیے نقاب پہننا منع ہے، مگراس حدیث میں جس نقاب کاذکرہے وہ چہرے پرباندھاجاتاتھا، برصغیر ہندوپاک کے موجودہ برقعوں کا نقاب چادرکے پلوکی طرح ہے جس کو ازواج مطہرات مردوں کے گزرتے وقت چہروں پر لٹکالیا کرتی تھیں اس لیے اس نقاب کو عورتیں بوقت ضرورت چہرے پر لٹکاسکتی ہیں اورچونکہ اس وقت حج میں ہروقت اجنبی مردوں کا سامناپڑتاہے اس لیے ہر وقت اس نقاب کو چہرے پرلٹکائے رکھ سکتی ہیں۔
۱؎ : جمہورنے اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے خف(چمڑے کے موزوں) کے کاٹنے کی شرط لگائی ہے لیکن امام احمد نے بغیرکاٹے خف (موزہ) پہننے کوجائزقرار دیاہے کیونکہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت 'من لم يجد نعلين فليلبس خفين ' جوبخاری میں آئی ہے مطلق ہے، لیکن جمہورنے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ یہاں مطلق کو مقید پرمحمول کیاجائے گا، حنابلہ نے اس روایت کے کئی جوابات دیئے ہیں جن میں ایک یہ ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کی یہ روایت منسوخ ہے کیونکہ یہ احرام سے پہلے مدینہ کا واقعہ ہے اور ابن عباس رضی اللہ عنہا کی روایت عرفات کی ہے، اس کا جواب یہ دیاگیا ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہا کی روایت حجت کے اعتبارسے ابن عباس کی روایت سے بڑھی ہوئی ہے کیونکہ وہ ایسی سند سے مروی ہے جو أصح الاسانید ہے۔۲؎ : ایک زردرنگ کی خوشبودارگھاس ہے جس سے کپڑے رنگے جاتے تھے،اس بات پراجماع ہے کہ حالتِ احرام میں مردکے لیے حدیث میں مذکوریہ کپڑے پہننے جائزنہیں ہیں، قمیص اورسراویل(پاجانے) میں تمام سلے ہوے کپڑے داخل ہیں، اسی طرح عمامہ اورخفین سے ہروہ چیز مرادہے جو سر اورقدم کو ڈھانپ لے، البتہ پانی میں سر کو ڈبونے یا ہاتھ یا چھتری سے سر کو چھپانے میں کوئی حرج نہیں،عورت کے لیے حالت احرام میں وہ تمام کپڑے پہننے جائزہیں جن کا اس حدیث میں ذکرہے البتہ وہ ورس اورزعفران میں رنگے ہوئے کپڑ ے نہ پہننے ۔ ۳؎ : محرم عورت کے لیے نقاب پہننا منع ہے، مگراس حدیث میں جس نقاب کاذکرہے وہ چہرے پرباندھاجاتاتھا، برصغیر ہندوپاک کے موجودہ برقعوں کا نقاب چادرکے پلوکی طرح ہے جس کو ازواج مطہرات مردوں کے گزرتے وقت چہروں پر لٹکالیا کرتی تھیں اس لیے اس نقاب کو عورتیں بوقت ضرورت چہرے پر لٹکاسکتی ہیں اورچونکہ اس وقت حج میں ہروقت اجنبی مردوں کا سامناپڑتاہے اس لیے ہر وقت اس نقاب کو چہرے پرلٹکائے رکھ سکتی ہیں۔