أَبْوَابُ الحَجِّ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ فِي التَّمَتُّعِ ضعيف حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ أَنَّهُ سَمِعَ سَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ وَالضَّحَّاكَ بْنَ قَيْسٍ وَهُمَا يَذْكُرَانِ التَّمَتُّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ فَقَالَ الضَّحَّاكُ بْنُ قَيْسٍ لَا يَصْنَعُ ذَلِكَ إِلَّا مَنْ جَهِلَ أَمْرَ اللَّهِ فَقَالَ سَعْدٌ بِئْسَ مَا قُلْتَ يَا ابْنَ أَخِي فَقَالَ الضَّحَّاكُ بْنُ قَيْسٍ فَإِنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَدْ نَهَى عَنْ ذَلِكَ فَقَالَ سَعْدٌ قَدْ صَنَعَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَصَنَعْنَاهَا مَعَهُ قَالَ هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ
کتاب: حج کے احکام ومسائل
حج تمتع کابیان
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے حج تمتع کیا ۱؎ اور ابوبکر عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم نے بھی ۲؎ اورسب سے پہلے جس نے اس سے روکا وہ معاویہ رضی اللہ عنہ ہیں ۳؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تشریح :
۱؎ : نبی اکرمﷺ نے کونساحج کیا تھا؟ اس بارے میں احادیث مختلف ہیں، بعض احادیثسے ثابت ہوتا ہے کہ آپ نے حج افرادکیا اوربعض سے حج تمتع اوربعض سے حج قران، ان روایات میں تطبیق اس طرح سے دی جاتی ہے کہ ہرایک نے نبی اکرمﷺ کی طرف اس چیز کی نسبت کردی ہے جس کا آپ نے اسے حکم دیا تھا، اوریہ صحیح ہے کہ آپ نے حج افرادکااحرام باندھا تھا اوربعدمیں آپ قارن ہوگئے تھے، جن لوگوں نے اس بات کی روایت کی ہے کہ آپ نے حج تمتع کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے انہیں اس کا حکم دیا کیونکہ آپ کاارشادہے' لولا معي الهدى لأحللت '(اگرمیرے ساتھ ہدی کاجانورنہ ہوتا تو میں عمرہ کرنے کے بعد حلال ہوجاتا ،اس کا صریح مطلب یہ ہے کہ آپ متمتع نہیں تھے، نیز صحابہ کی اصطلاح میں قِران کو بھی تمتع کہا جاتا تھا، کیوں کہ ایک ہی سفر میں عمرہ اور حج دونوں کا فائدہ تو بہر حال حج قران میں بھی حاصل ہے، اسی طرح جن لوگوں نے قران کی راویت کی ہے انہوں نے آخری حال کی خبردی ہے کیونکہ شروع میں آپ کے پیش نظرحج افرادتھابعدمیں آپ نے حج میں عمرہ کوبھی شامل کرلیا، اورآپ سے کہاگیا:' قل عمرة في حجة' اس طرح آپ نے حج افرادکو حج قِران سے بدل دیا۔
اب رہا یہ مسئلہ کہ ان تینوں قسموں میں سے کونسی قسم افضل ہے؟ تو احناف حج قرِان کوافضل کہتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب کے لیے اسی حج کوپسندکیا تھا اور اس میں مشقت بھی زیادہ اٹھانی پڑتی ہے، امام احمداورامام مالک نے حج تمتع کوافضل کہاہے کیونکہ اس میں سہولت ہے اورنبی اکرمﷺ نے ایک مرحلہ پراس کی خواہش کااظہاربھی فرمایاتھا اوربعض نے حج افراد کوافضل قراردیاہے۔آخری اورحق بات یہی ہے کہ حج تمتع سب سے افضل ہے۔ ۲؎ : یہ حدیث مسلم کی اس روایت کے معارض ہے جس میں ہے: 'قال عبدالله بن شقيق: كان عثمان ينهى عن المتعة وكان علي يأمربها' اورنیچے کی روایت سے عمرکامنع کرنا بھی ثابت ہوتا ہے، تطبیق اس طرح سے دی جاتی ہے کہ ان دونوں کی ممانعت تنزیہی تھی، ان دونوں کی نہی اس وقت کی ہے جب انہیں اس کے جائز ہو نے کاعلم نہیں تھا، پھرجب انہیں اس کا جوازمعلوم ہواتوانہوں نے بھی تمتع کیا۔۳؎ : روایات سے معاویہ رضی اللہ عنہ سے پہلے عمروعثمان رضی اللہ عنہا سے ممانعت ثابت ہے ،ان کی یہ ممانعت تنزیہی تھی، اورمعاویہ رضی اللہ عنہ کی نہی تحریمی، لہذا یہ کہاجاسکتا ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی اوّلیت تحریم کے اعتبارسے تھی۔
نوٹ:(سند میں لیث بن ابی سُلیم اختلاط کی وجہ سے متروک الحدیث راوی ہے، لیکن اس حدیث کا اصل مسئلہ دیگراحادیث سے ثابت ہے )
۱؎ : نبی اکرمﷺ نے کونساحج کیا تھا؟ اس بارے میں احادیث مختلف ہیں، بعض احادیثسے ثابت ہوتا ہے کہ آپ نے حج افرادکیا اوربعض سے حج تمتع اوربعض سے حج قران، ان روایات میں تطبیق اس طرح سے دی جاتی ہے کہ ہرایک نے نبی اکرمﷺ کی طرف اس چیز کی نسبت کردی ہے جس کا آپ نے اسے حکم دیا تھا، اوریہ صحیح ہے کہ آپ نے حج افرادکااحرام باندھا تھا اوربعدمیں آپ قارن ہوگئے تھے، جن لوگوں نے اس بات کی روایت کی ہے کہ آپ نے حج تمتع کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے انہیں اس کا حکم دیا کیونکہ آپ کاارشادہے' لولا معي الهدى لأحللت '(اگرمیرے ساتھ ہدی کاجانورنہ ہوتا تو میں عمرہ کرنے کے بعد حلال ہوجاتا ،اس کا صریح مطلب یہ ہے کہ آپ متمتع نہیں تھے، نیز صحابہ کی اصطلاح میں قِران کو بھی تمتع کہا جاتا تھا، کیوں کہ ایک ہی سفر میں عمرہ اور حج دونوں کا فائدہ تو بہر حال حج قران میں بھی حاصل ہے، اسی طرح جن لوگوں نے قران کی راویت کی ہے انہوں نے آخری حال کی خبردی ہے کیونکہ شروع میں آپ کے پیش نظرحج افرادتھابعدمیں آپ نے حج میں عمرہ کوبھی شامل کرلیا، اورآپ سے کہاگیا:' قل عمرة في حجة' اس طرح آپ نے حج افرادکو حج قِران سے بدل دیا۔
اب رہا یہ مسئلہ کہ ان تینوں قسموں میں سے کونسی قسم افضل ہے؟ تو احناف حج قرِان کوافضل کہتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب کے لیے اسی حج کوپسندکیا تھا اور اس میں مشقت بھی زیادہ اٹھانی پڑتی ہے، امام احمداورامام مالک نے حج تمتع کوافضل کہاہے کیونکہ اس میں سہولت ہے اورنبی اکرمﷺ نے ایک مرحلہ پراس کی خواہش کااظہاربھی فرمایاتھا اوربعض نے حج افراد کوافضل قراردیاہے۔آخری اورحق بات یہی ہے کہ حج تمتع سب سے افضل ہے۔ ۲؎ : یہ حدیث مسلم کی اس روایت کے معارض ہے جس میں ہے: 'قال عبدالله بن شقيق: كان عثمان ينهى عن المتعة وكان علي يأمربها' اورنیچے کی روایت سے عمرکامنع کرنا بھی ثابت ہوتا ہے، تطبیق اس طرح سے دی جاتی ہے کہ ان دونوں کی ممانعت تنزیہی تھی، ان دونوں کی نہی اس وقت کی ہے جب انہیں اس کے جائز ہو نے کاعلم نہیں تھا، پھرجب انہیں اس کا جوازمعلوم ہواتوانہوں نے بھی تمتع کیا۔۳؎ : روایات سے معاویہ رضی اللہ عنہ سے پہلے عمروعثمان رضی اللہ عنہا سے ممانعت ثابت ہے ،ان کی یہ ممانعت تنزیہی تھی، اورمعاویہ رضی اللہ عنہ کی نہی تحریمی، لہذا یہ کہاجاسکتا ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی اوّلیت تحریم کے اعتبارسے تھی۔
نوٹ:(سند میں لیث بن ابی سُلیم اختلاط کی وجہ سے متروک الحدیث راوی ہے، لیکن اس حدیث کا اصل مسئلہ دیگراحادیث سے ثابت ہے )