أَبْوَابُ الصَّوْمِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ فِي قِيَامِ شَهْرِ رَمَضَانَ صحيح حَدَّثَنَا هَنَّادٌ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْفُضَيْلِ عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْجُرَشِيِّ عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ صُمْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يُصَلِّ بِنَا حَتَّى بَقِيَ سَبْعٌ مِنْ الشَّهْرِ فَقَامَ بِنَا حَتَّى ذَهَبَ ثُلُثُ اللَّيْلِ ثُمَّ لَمْ يَقُمْ بِنَا فِي السَّادِسَةِ وَقَامَ بِنَا فِي الْخَامِسَةِ حَتَّى ذَهَبَ شَطْرُ اللَّيْلِ فَقُلْنَا لَهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ لَوْ نَفَّلْتَنَا بَقِيَّةَ لَيْلَتِنَا هَذِهِ فَقَالَ إِنَّهُ مَنْ قَامَ مَعَ الْإِمَامِ حَتَّى يَنْصَرِفَ كُتِبَ لَهُ قِيَامُ لَيْلَةٍ ثُمَّ لَمْ يُصَلِّ بِنَا حَتَّى بَقِيَ ثَلَاثٌ مِنْ الشَّهْرِ وَصَلَّى بِنَا فِي الثَّالِثَةِ وَدَعَا أَهْلَهُ وَنِسَاءَهُ فَقَامَ بِنَا حَتَّى تَخَوَّفْنَا الْفَلَاحَ قُلْتُ لَهُ وَمَا الْفَلَاحُ قَالَ السُّحُورُ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ فَرَأَى بَعْضُهُمْ أَنْ يُصَلِّيَ إِحْدَى وَأَرْبَعِينَ رَكْعَةً مَعَ الْوِتْرِ وَهُوَ قَوْلُ أَهْلِ الْمَدِينَةِ وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَهُمْ بِالْمَدِينَةِ وَأَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ عَلَى مَا رُوِيَ عَنْ عُمَرَ وَعَلِيٍّ وَغَيْرِهِمَا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِشْرِينَ رَكْعَةً وَهُوَ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ وَابْنِ الْمُبَارَكِ وَالشَّافِعِيِّ و قَالَ الشَّافِعِيُّ وَهَكَذَا أَدْرَكْتُ بِبَلَدِنَا بِمَكَّةَ يُصَلُّونَ عِشْرِينَ رَكْعَةً و قَالَ أَحْمَدُ رُوِيَ فِي هَذَا أَلْوَانٌ وَلَمْ يُقْضَ فِيهِ بِشَيْءٍ و قَالَ إِسْحَقُ بَلْ نَخْتَارُ إِحْدَى وَأَرْبَعِينَ رَكْعَةً عَلَى مَا رُوِيَ عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ وَاخْتَارَ ابْنُ الْمُبَارَكِ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ الصَّلَاةَ مَعَ الْإِمَامِ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ وَاخْتَارَ الشَّافِعِيُّ أَنْ يُصَلِّيَ الرَّجُلُ وَحْدَهُ إِذَا كَانَ قَارِئًا وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ وَالنُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ
کتاب: روزے کے احکام ومسائل
ماہ رمضان کی راتوں میں قیام (تہجدپڑھنے) کا بیان
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہﷺ کے ساتھ صیام رمضان رکھے توآپ نے ہمیں صلاۃ (تراویح) نہیں پڑھائی، یہاں تک کہ رمضان کے صرف سات دن باقی رہ گئے توآپ نے ہمارے ساتھ قیام کیا(یعنی تہجدپڑھی) یہاں تک کہ ایک تہائی رات گزرگئی۔ پھر جب چھ راتیں رہ گئیں تو آپ نے ہمارے ساتھ قیام نہیں کیا، (یعنی تہجدنہیں پڑھی)اورجب پانچ راتیں رہ گئیں تو آپ نے ہمارے ساتھ قیام کیا(یعنی تہجدپڑھی) یہاں تک کہ آدھی رات ہوگئی۔ توہم نے آپ سے عرض کیا : اللہ کے رسول! اگر آپ اس رات کے باقی ماندہ حصہ میں بھی ہمیں نفل پڑھاتے رہتے (توبہترہوتا) ؟آ پ نے فرمایا: 'جس نے امام کے ساتھ قیام کیا یہاں تک کہ وہ فارغ ہوجائے تو اس کے لیے پوری رات کاقیام لکھا جائے گا، پھر آپ نے ہمیں صلاۃ نہیں پڑھائی، یہاں تک کہ مہینے کے صرف تین دن باقی رہ گئے، پھرآپ نے ہمیں ۲۷ویں رات کو صلاۃ پڑھائی۔ اوراپنے گھروالوں اورا پنی عورتوں کوبھی بلایا، آپ نے ہمارے ساتھ قیام کیایہاں تک کہ ہمیں فلاح کے چھوٹ جانے کا اندیشہ ہوا۔ (راوی کہتے ہیں) میں نے پوچھا: فلاح کیاچیز ہے؟ توانہوں نے کہا: سحری ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں عائشہ ، نعمان بن بشیر اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں ،۳- رمضان کے قیام کے سلسلے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ وترکے ساتھ اکتالیس رکعتیں پڑھے گا، یہ اہل مدینہ کا قول ہے، ان کے نزدیک مدینے میں اسی پر عمل تھا،۴- اور اکثر اہل علم ان احادیث کی بناپر جو عمر، علی اوردوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہے بیس رکعت کے قائل ہیں ۔ یہ سفیان ثوری ، ابن مبارک اور شافعی کا قول ہے۔اور شافعی کہتے ہیں: اسی طرح سے میں نے اپنے شہر مکے میں پایاہے کہ بیس رکعتیں پڑھتے تھے،۵- احمد کہتے ہیں: اس سلسلے میں کئی قسم کی باتیں مروی ہیں ۱؎ انہوں نے اس سلسلے میں کوئی فیصلہ کن بات نہیں کہی،۶- اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں : ہمیں ابی بن کعب کی روایت کے مطابق ۴۱ رکعتیں مرغوب ہیں،۷- ابن مبارک ، احمد اور اسحاق بن راہویہ نے ماہ رمضان میں امام کے ساتھ صلاۃ پڑھنے کو پسندکیا ہے،۸- شافعی نے اکیلے پڑھنے کو پسندکیا ہے جب وہ قاری ہو۔
تشریح :
۱؎ : امام ترمذی نے اس سلسلے میں صرف دوقول کاذکرکیا ہے ان کے علاوہ اوربھی بہت سے اقوال اس سلسلہ میں واردہیں ان میں راجح اورمختاراوردلائل کے اعتبارسے سب سے قوی گیارہ رکعت کا قول ہے، کیونکہ رسول اللہﷺسے صحیح سندسے یہی قول ثابت ہے دیگراقوال میں سے کوئی بھی آپ سے صحیح سندسے ثابت نہیں اورنہ ہی خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم میں سے کسی سے صحیح سند سے ثابت ہے ۔
۱؎ : امام ترمذی نے اس سلسلے میں صرف دوقول کاذکرکیا ہے ان کے علاوہ اوربھی بہت سے اقوال اس سلسلہ میں واردہیں ان میں راجح اورمختاراوردلائل کے اعتبارسے سب سے قوی گیارہ رکعت کا قول ہے، کیونکہ رسول اللہﷺسے صحیح سندسے یہی قول ثابت ہے دیگراقوال میں سے کوئی بھی آپ سے صحیح سندسے ثابت نہیں اورنہ ہی خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم میں سے کسی سے صحیح سند سے ثابت ہے ۔