جامع الترمذي - حدیث 693

أَبْوَابُ الصَّوْمِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ لِكُلِّ أَهْلِ بَلَدٍ رُؤْيَتُهُمْ​ صحيح حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي حَرْمَلَةَ أَخْبَرَنِي كُرَيْبٌ أَنَّ أُمَّ الْفَضْلِ بِنْتَ الْحَارِثِ بَعَثَتْهُ إِلَى مُعَاوِيَةَ بِالشَّامِ قَالَ فَقَدِمْتُ الشَّامَ فَقَضَيْتُ حَاجَتَهَا وَاسْتُهِلَّ عَلَيَّ هِلَالُ رَمَضَانَ وَأَنَا بِالشَّامِ فَرَأَيْنَا الْهِلَالَ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ ثُمَّ قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فِي آخِرِ الشَّهْرِ فَسَأَلَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ ثُمَّ ذَكَرَ الْهِلَالَ فَقَالَ مَتَى رَأَيْتُمْ الْهِلَالَ فَقُلْتُ رَأَيْنَاهُ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ فَقَالَ أَأَنْتَ رَأَيْتَهُ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ فَقُلْتُ رَآهُ النَّاسُ وَصَامُوا وَصَامَ مُعَاوِيَةُ قَالَ لَكِنْ رَأَيْنَاهُ لَيْلَةَ السَّبْتِ فَلَا نَزَالُ نَصُومُ حَتَّى نُكْمِلَ ثَلَاثِينَ يَوْمًا أَوْ نَرَاهُ فَقُلْتُ أَلَا تَكْتَفِي بِرُؤْيَةِ مُعَاوِيَةَ وَصِيَامِهِ قَالَ لَا هَكَذَا أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَبُو عِيسَى حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّ لِكُلِّ أَهْلِ بَلَدٍ رُؤْيَتَهُمْ

ترجمہ جامع ترمذی - حدیث 693

کتاب: روزے کے احکام ومسائل ہرشہروالوں کے لیے انہیں کے چاند دیکھنے کااعتبارہوگا​ کریب بیان کرتے ہیں کہ ام فضل بنت حارث نے انہیں معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس شام بھیجا، تو میں شام آیا اور میں نے ان کی ضرورت پوری کی ، اور(اسی درمیان) رمضان کاچاند نکل آیا، اورمیں شام ہی میں تھاکہ ہم نے جمعہ کی رات کو چاند دیکھا ۱؎ ، پھر میں مہینے کے آخرمیں مدینہ آیا تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے مجھ سے وہاں کے حالات پوچھے پھر انہوں نے چاندکا ذکرکیا اورکہا: تم لوگوں نے چاند کب دیکھاتھا؟ میں نے کہا: ہم نے اُسے جمعہ کی رات کو دیکھاتھا، توانہوں نے کہا: کیاتم نے بھی جمعہ کی رات کو دیکھاتھا؟تومیں نے کہا: لوگوں نے اسے دیکھااورانہوں نے صیام رکھے اورمعاویہ رضی اللہ عنہ نے بھی صوم رکھا، اس پرابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: لیکن ہم نے اسے ہفتہ (سنیچر) کی رات کو دیکھا، تو ہم برابرصوم سے رہیں گے یہاں تک کہ ہم تیس دن پورے کرلیں، یاہم ۲۹کا چانددیکھ لیں، تومیں نے کہا: کیا آپ معاویہ کے چاند دیکھنے اورصوم رکھنے پر اکتفانہیں کریں گے؟ انہوں نے کہا: نہیں،ہمیں رسول اللہﷺ نے ایساہی حکم دیاہے ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن صحیح غریب ہے، ۲- اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ ہر شہر والوں کے لیے ان کے خودچانددیکھنے کااعتبارہوگا۔
تشریح : ۱؎ : اس سے معلوم ہوا کہ صوم رکھنے اورتوڑنے کے سلسلہ میں چاند کی رویت ضروری ہے، محض فلکی حساب کافی نہیں، رہایہ مسئلہ کہ ایک علاقے کی رویت دوسرے علاقے کے لیے معتبرہوگی یا نہیں؟ تو اس سلسلہ میں علماء میں اختلاف ہے جو گروہ معتبر مانتا ہے وہ کہتاہے کہ 'صوموا' اور'افطروا' کے مخاطب ساری دنیاکے مسلمان ہیں اس لیے کسی ایک علاقے کی رویت دنیاکے سارے علاقوں کے لیے رویت ہے اورجو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ایک علاقے کی رویت دوسرے علاقے کے لیے کافی نہیں ان کا کہنا ہے کہ اس حکم کے مخاطب صرف وہ مسلمان ہیں جنھوں نے چاند دیکھا ہو، جن علاقوں میں مسلمانوں نے چاند دیکھا ہی نہیں وہ اس کے مخاطب ہی نہیں، اس لیے وہ کہتے ہیں کہ ہر علاقے کے لیے اپنی الگ رویت ہے جس کے مطابق وہ صوم رکھنے یا نہ رکھنے کے فیصلے کریں گے، اس سلسلہ میں ایک تیسراقول بھی ہے کہ جو علاقے مطلع کے اعتبارسے قریب قریب ہیں یعنی ان کے طلوع وغروب میں زیادہ فرق نہیں ہے ان علاقوں میں ایک علاقے کی رویت دوسرے علاقوں کے لیے کافی ہے۔ ۱؎ : اس سے معلوم ہوا کہ صوم رکھنے اورتوڑنے کے سلسلہ میں چاند کی رویت ضروری ہے، محض فلکی حساب کافی نہیں، رہایہ مسئلہ کہ ایک علاقے کی رویت دوسرے علاقے کے لیے معتبرہوگی یا نہیں؟ تو اس سلسلہ میں علماء میں اختلاف ہے جو گروہ معتبر مانتا ہے وہ کہتاہے کہ 'صوموا' اور'افطروا' کے مخاطب ساری دنیاکے مسلمان ہیں اس لیے کسی ایک علاقے کی رویت دنیاکے سارے علاقوں کے لیے رویت ہے اورجو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ایک علاقے کی رویت دوسرے علاقے کے لیے کافی نہیں ان کا کہنا ہے کہ اس حکم کے مخاطب صرف وہ مسلمان ہیں جنھوں نے چاند دیکھا ہو، جن علاقوں میں مسلمانوں نے چاند دیکھا ہی نہیں وہ اس کے مخاطب ہی نہیں، اس لیے وہ کہتے ہیں کہ ہر علاقے کے لیے اپنی الگ رویت ہے جس کے مطابق وہ صوم رکھنے یا نہ رکھنے کے فیصلے کریں گے، اس سلسلہ میں ایک تیسراقول بھی ہے کہ جو علاقے مطلع کے اعتبارسے قریب قریب ہیں یعنی ان کے طلوع وغروب میں زیادہ فرق نہیں ہے ان علاقوں میں ایک علاقے کی رویت دوسرے علاقوں کے لیے کافی ہے۔