جامع الترمذي - حدیث 673

أَبْوَابُ الزَّكَاةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ فِي صَدَقَةِ الْفِطْرِ​ صحيح حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ عِيَاضِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ كُنَّا نُخْرِجُ زَكَاةَ الْفِطْرِ إِذْ كَانَ فِينَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَاعًا مِنْ طَعَامٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ زَبِيبٍ أَوْ صَاعًا مِنْ أَقِطٍ فَلَمْ نَزَلْ نُخْرِجُهُ حَتَّى قَدِمَ مُعَاوِيَةُ الْمَدِينَةَ فَتَكَلَّمَ فَكَانَ فِيمَا كَلَّمَ بِهِ النَّاسَ إِنِّي لَأَرَى مُدَّيْنِ مِنْ سَمْرَاءِ الشَّامِ تَعْدِلُ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ قَالَ فَأَخَذَ النَّاسُ بِذَلِكَ قَالَ أَبُو سَعِيدٍ فَلَا أَزَالُ أُخْرِجُهُ كَمَا كُنْتُ أُخْرِجُهُ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ يَرَوْنَ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ صَاعًا وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ صَاعٌ إِلَّا مِنْ الْبُرِّ فَإِنَّهُ يُجْزِئُ نِصْفُ صَاعٍ وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَابْنِ الْمُبَارَكِ وَأَهْلُ الْكُوفَةِ يَرَوْنَ نِصْفَ صَاعٍ مِنْ بُرٍّ

ترجمہ جامع ترمذی - حدیث 673

کتاب: زکاۃ وصدقات کے احکام ومسائل صدقہ ٔ فطر کا بیان​ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ہم لوگ -جب رسول اللہﷺ ہمارے درمیان موجود تھے - صدقہء فطر ۱؎ میں ایک صاع گیہوں ۲؎ یا ایک صاع جو، یاایک صاع کھجور یا ایک صاع کشمش یا ایک صاع پنیر نکالتے تھے۔ توہم اسی طرح برابر صدقہء فطرنکالتے رہے یہاں تک کہ معاویہ رضی اللہ عنہ مدینہ آئے، توانہوں نے لوگوں سے خطاب کیا، اس خطاب میں یہ بات بھی تھی کہ میں شام کے دو مد گیہوں کو ایک صاع کھجور کے برابر سمجھتاہوں۔ تو لوگوں نے اسی کواختیارکرلیا یعنی لوگ دومدآدھاصاع گیہوں دینے لگے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- بعض اہل علم کااسی پرعمل ہے ان کا خیال ہے کہ ہرچیز میں ایک صاع ہے، یہی شافعی ، احمد اوراسحاق بن راہویہ کابھی قول ہے،۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ ہرچیز میں ایک صاع ہے سوائے گیہوں کے، اس میں آدھا صاع کافی ہے،۴- یہی سفیان ثوری اور ابن مبارک کا بھی قول ہے ۔اور اہل کوفہ کی بھی رائے ہے کہ گیہوں میں نصف صاع ہی ہے۔
تشریح : ۱؎ : صدقہ فطرکی فرضیت رمضان کے آغازکے بعد عید سے صرف دوروز پہلے ۲ھ؁میں ہوئی، اس کی ادائیگی کاحکم بھی صلاۃ عیدسے پہلے پہلے ہے تاکہ معاشرے کے ضرورت مندحضرات اس روزمانگنے سے بے نیازہوکرعام مسلمانوں کے ساتھ عیدکی خوشی میں شریک ہوسکیں، اس کی مقدارایک صاع ہے خواہ کوئی بھی جنس ہو، صدقہء فطرکے لیے صاحب نصاب ہوناضروری نہیں۔اورصاع ڈھائی کلوگرام کے برابرہوتا ہے۔ ۲؎ : 'صاعاً من طعام ' میں طعام سے مرادحنطۃ(گیہوں)ہے کیونکہ طعام کا لفظ مطلقاً گیہوں کے معنی میں بولاجاتاتھاجب کہاجاتاہے : إذهب إلى سوق الطعام تو اس سے سوق الحنطۃ (گیہوں کابازار) ہی سمجھاجاتاتھا، اوربعض لوگوں نے کہا من طعام مجمل ہے اورآگے اس کی تفسیرہے، یہ عطف الخاص علی العام ہے۔ ۱؎ : صدقہ فطرکی فرضیت رمضان کے آغازکے بعد عید سے صرف دوروز پہلے ۲ھ؁میں ہوئی، اس کی ادائیگی کاحکم بھی صلاۃ عیدسے پہلے پہلے ہے تاکہ معاشرے کے ضرورت مندحضرات اس روزمانگنے سے بے نیازہوکرعام مسلمانوں کے ساتھ عیدکی خوشی میں شریک ہوسکیں، اس کی مقدارایک صاع ہے خواہ کوئی بھی جنس ہو، صدقہء فطرکے لیے صاحب نصاب ہوناضروری نہیں۔اورصاع ڈھائی کلوگرام کے برابرہوتا ہے۔ ۲؎ : 'صاعاً من طعام ' میں طعام سے مرادحنطۃ(گیہوں)ہے کیونکہ طعام کا لفظ مطلقاً گیہوں کے معنی میں بولاجاتاتھاجب کہاجاتاہے : إذهب إلى سوق الطعام تو اس سے سوق الحنطۃ (گیہوں کابازار) ہی سمجھاجاتاتھا، اوربعض لوگوں نے کہا من طعام مجمل ہے اورآگے اس کی تفسیرہے، یہ عطف الخاص علی العام ہے۔