أَبْوَابُ الزَّكَاةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الْعَوْدِ فِي الصَّدَقَةِ صحيح حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ إِسْحَقَ الْهَمْدَانِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ عُمَرَ أَنَّهُ حَمَلَ عَلَى فَرَسٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ثُمَّ رَآهَا تُبَاعُ فَأَرَادَ أَنْ يَشْتَرِيَهَا فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَعُدْ فِي صَدَقَتِكَ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ
کتاب: زکاۃ وصدقات کے احکام ومسائل صدقہ دے کر واپس لینے کی کراہت کا بیان عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے کسی کو ایک گھوڑا اللہ کی راہ میں دیا، پھر دیکھاکہ وہ گھوڑا بیچا جارہاہے تو اسے خریدنا چاہا، نبی اکرمﷺنے فرمایا:'اپنا صدقہ واپس نہ لو' ۱؎ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اکثر اہل علم کااسی پر عمل ہے۔ وضاحت ۱؎ : کیونکہ صدقہ دے کرواپس لینے والا اس کتے کی طرح ہے جو قے کر کے چاٹ لیتا ہے، ظاہر حدیث سے استدلال کرتے ہوئے بعض علماء نے اپنے دیئے ہوئے صدقے کے خریدنے کو حرام کہاہے، لیکن جمہورنے اسے کراہت تنزیہی پرمحمول کیا ہے کیونکہ فی نفسہ اس میں کوئی قباحت نہیں، قباحت دوسرے کی وجہ سے ہے کیونکہ بسااوقات صدقہ دینے والا لینے والے سے جب اپنا صدقہ خریدتاہے تو اس کے اس احسان کی وجہ سے جو صدقہ دے کر اس نے اس پر کیا تھا وہ قیمت میں رعایت سے کام لیتاہے، نیز بظاہریہ حدیث ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ کی حدیث'لا تحل الصدقۃ إلا لخمسۃ لعامل علیہا أو رجل اشتراہا بما...الحدیث'کے معارض ہے،تطبیق اس طرح دی جاتی ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ والی حدیث کراہت تنزیہی پرمحمول کی جائیگی اور ابوسعید رضی اللہ عنہ والی روایت بیان جواز پر، یا عمر رضی اللہ عنہ کی روایت نفل صدقے کے سلسلہ میں ہے اورابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ کی روایت فرض صدقے کے بارے میں ہے۔