أَبْوَابُ الزَّكَاةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ أَخْذِ خِيَارِ الْمَالِ فِي الصَّدَقَةِ صحيح حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ إِسْحَقَ الْمَكِّيُّ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَيْفِيٍّ عَنْ أَبِي مَعْبَدٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ مُعَاذًا إِلَى الْيَمَنِ فَقَالَ لَهُ إِنَّكَ تَأْتِي قَوْمًا أَهْلَ كِتَابٍ فَادْعُهُمْ إِلَى شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لِذَلِكَ فَأَعْلِمْهُمْ أَنَّ اللَّهَ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِي الْيَوْمِ وَاللَّيْلَةِ فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لِذَلِكَ فَأَعْلِمْهُمْ أَنَّ اللَّهَ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ صَدَقَةً فِي أَمْوَالِهِمْ تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ وَتُرَدُّ عَلَى فُقَرَائِهِمْ فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لِذَلِكَ فَإِيَّاكَ وَكَرَائِمَ أَمْوَالِهِمْ وَاتَّقِ دَعْوَةَ الْمَظْلُومِ فَإِنَّهَا لَيْسَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ اللَّهِ حِجَابٌ وَفِي الْبَاب عَنْ الصُّنَابِحِيِّ قَالَ أَبُو عِيسَى حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَأَبُو مَعْبَدٍ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ اسْمُهُ نَافِذٌ
کتاب: زکاۃ وصدقات کے احکام ومسائل
صدقے میں عمدہ مال لینے کی کراہت کا بیان
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن (کی طرف اپناعامل بناکر) بھیجا اور ان سے فرمایا: 'تم اہل کتاب کی ایک جماعت کے پاس جارہے ہو ، تم انہیں دعوت دیناکہ وہ اس بات کی گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودبرحق نہیں اور یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں، اگروہ اس کو مان لیں تو انہیں بتانا کہ اللہ نے ان پر رات اور دن میں پانچ وقت کی صلاۃ فرض کی ہے، اگر وہ اسے مان لیں تو انہیں بتانا کہ اللہ نے ان کے مال میں زکاۃ فرض کی ہے، جو ان کے مالداروں سے لی جائے گی اور ان کے فقراء ومساکین کو لوٹا دی جائے گی ۱؎ ، اگروہ اسے مان لیں تو تم ان کے عمدہ مال لینے سے اپنے آپ کوبچانا اور مظلوم کی بددعا سے بچنا ، اس لئے کہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں ہوتا ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں صنابحی رضی اللہ عنہ ۲؎ سے بھی روایت ہے۔
تشریح :
۱؎ : اس سے معلوم ہواکہ زکاۃ جس جگہ سے وصول کی جائے وہیں کے محتاجوں اورضرورت مندوں میں زکاۃ تقسیم کی جائے، مقامی فقراء سے اگرزکاۃبچ جائے تب وہ دوسرے علاقوں میں منتقل کی جائے، بظاہراس حدیث سے یہی بات ثابت ہوتی ہے ، لیکن امام بخاری نے اپنی صحیح میں باب باندھاہے ' أخذ الصدقة من الأغنياء وترد في الفقراء حيث كانوا ' اوراس کے تحت یہی حدیث ذکرکی ہے اور' فقراؤهم 'میں 'هم' کی ضمیرکومسلمین کی طرف لوٹایاہے یعنی مسلمانوں میں سے جوبھی محتاج ہواسے زکاۃ دی جائے، خواہ وہ کہیں کا ہو
۲؎ : صنابحی سے مرادصنابح بن اعسراحمصی ہیں جو صحابی رسول ہیں۔
۱؎ : اس سے معلوم ہواکہ زکاۃ جس جگہ سے وصول کی جائے وہیں کے محتاجوں اورضرورت مندوں میں زکاۃ تقسیم کی جائے، مقامی فقراء سے اگرزکاۃبچ جائے تب وہ دوسرے علاقوں میں منتقل کی جائے، بظاہراس حدیث سے یہی بات ثابت ہوتی ہے ، لیکن امام بخاری نے اپنی صحیح میں باب باندھاہے ' أخذ الصدقة من الأغنياء وترد في الفقراء حيث كانوا ' اوراس کے تحت یہی حدیث ذکرکی ہے اور' فقراؤهم 'میں 'هم' کی ضمیرکومسلمین کی طرف لوٹایاہے یعنی مسلمانوں میں سے جوبھی محتاج ہواسے زکاۃ دی جائے، خواہ وہ کہیں کا ہو
۲؎ : صنابحی سے مرادصنابح بن اعسراحمصی ہیں جو صحابی رسول ہیں۔