جامع الترمذي - حدیث 619

أَبْوَابُ الزَّكَاةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ إِذَا أَدَّيْتَ الزَّكَاةَ فَقَدْ قَضَيْتَ مَا عَلَيْكَ​ صحيح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ قَالَ كُنَّا نَتَمَنَّى أَنْ يَأْتِيَ الْأَعْرَابِيُّ الْعَاقِلُ فَيَسْأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ عِنْدَهُ فَبَيْنَا نَحْنُ كَذَلِكَ إِذْ أَتَاهُ أَعْرَابِيٌّ فَجَثَا بَيْنَ يَدَيْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ إِنَّ رَسُولَكَ أَتَانَا فَزَعَمَ لَنَا أَنَّكَ تَزْعُمُ أَنَّ اللَّهَ أَرْسَلَكَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَعَمْ قَالَ فَبِالَّذِي رَفَعَ السَّمَاءَ وَبَسَطَ الْأَرْضَ وَنَصَبَ الْجِبَالَ آللَّهُ أَرْسَلَكَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَعَمْ قَالَ فَإِنَّ رَسُولَكَ زَعَمَ لَنَا أَنَّكَ تَزْعُمُ أَنَّ عَلَيْنَا خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِي الْيَوْمِ وَاللَّيْلَةِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَعَمْ قَالَ فَبِالَّذِي أَرْسَلَكَ آللَّهُ أَمَرَكَ بِهَذَا قَالَ نَعَمْ قَالَ فَإِنَّ رَسُولَكَ زَعَمَ لَنَا أَنَّكَ تَزْعُمُ أَنَّ عَلَيْنَا صَوْمَ شَهْرٍ فِي السَّنَةِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَدَقَ قَالَ فَبِالَّذِي أَرْسَلَكَ آللَّهُ أَمَرَكَ بِهَذَا قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَعَمْ قَالَ فَإِنَّ رَسُولَكَ زَعَمَ لَنَا أَنَّكَ تَزْعُمُ أَنَّ عَلَيْنَا فِي أَمْوَالِنَا الزَّكَاةَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَدَقَ قَالَ فَبِالَّذِي أَرْسَلَكَ آللَّهُ أَمَرَكَ بِهَذَا قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَعَمْ قَالَ فَإِنَّ رَسُولَكَ زَعَمَ لَنَا أَنَّكَ تَزْعُمُ أَنَّ عَلَيْنَا الْحَجَّ إِلَى الْبَيْتِ مَنْ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَعَمْ قَالَ فَبِالَّذِي أَرْسَلَكَ آللَّهُ أَمَرَكَ بِهَذَا فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَعَمْ فَقَالَ وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَا أَدَعُ مِنْهُنَّ شَيْئًا وَلَا أُجَاوِزُهُنَّ ثُمَّ وَثَبَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنْ صَدَقَ الْأَعْرَابِيُّ دَخَلَ الْجَنَّةَ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ عَنْ أَنَسٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَعِيلَ يَقُولُ قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِقْهُ هَذَا الْحَدِيثِ أَنَّ الْقِرَاءَةَ عَلَى الْعَالِمِ وَالْعَرْضَ عَلَيْهِ جَائِزٌ مِثْلُ السَّمَاعِ وَاحْتَجَّ بِأَنَّ الْأَعْرَابِيَّ عَرَضَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَقَرَّ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

ترجمہ جامع ترمذی - حدیث 619

کتاب: زکاۃ وصدقات کے احکام ومسائل زکاۃ ادا کرنے سے اپنے اوپرعائد فریضہ کے ادا ہوجانے کا بیان​ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگوں کی خواہش ہوتی تھی کہ کوئی عقل مند اعرابی (دیہاتی) آئے اورنبی اکرم ﷺ سے مسئلہ پوچھے اور ہم آپ کے پاس ہوں ۱؎ ہم آپ کے پاس تھے کہ اسی دوران آپ کے پاس ایک اعرابی آیا ۲؎ اورآپﷺ کے سامنے دوزانوہوکربیٹھ گیا۔ اورپوچھا: اے محمد! آپ کا قاصد ہمارے پاس آیا اوراس نے ہمیں بتایا کہ آپ کہتے ہیں کہ آپ کو اللہ نے رسول بنا کر بھیجا ہے (کیا یہ صحیح ہے؟) ۔نبی اکرمﷺ نے فرمایا: 'ہاں، یہ صحیح ہے ، اس نے کہا:قسم ہے اس ذات کی جس نے آسمان بلند کیا، زمین اور پہاڑ نصب کئے۔ کیا اللہ نے آپ کو رسول بناکر بھیجا ہے؟نبی اکرمﷺ نے فرمایا: 'ہاں، اس نے کہا: آپ کا قاصد ہم سے کہتاہے کہ آپ فرماتے ہیں : ہم پر دن اور رات میں پانچ صلاۃ فرض ہیں(کیا ایسا ہے؟)،نبی اکرمﷺ نے فرمایا: 'ہاں، اس نے کہا:قسم ہے اس ذات کی، جس نے آپ کو رسول بنایا ہے! کیا آپ کو اللہ نے اس کا حکم دیا ہے؟ آپ نے فرمایا: 'ہاں، اس نے کہا: آپ کا قاصد کہتاہے کہ آپ فرماتے ہیں : ہم پر سال میں ایک ماہ کے صیام فرض ہیں(کیا یہ صحیح ہے؟)،نبی اکرمﷺ نے فرمایا: 'ہاں وہ( سچ کہہ رہا ہے) اعرابی نے مزید کہا: قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو رسول بناکربھیجاہے کیا اللہ نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے؟نبی اکرمﷺ نے فرمایا: 'ہاں(دیاہے)، اس نے کہا: آپ کا قاصد کہتاہے کہ آپ فرماتے ہیں: ہم پر ہمارے مالوں میں زکاۃ واجب ہے(کیا یہ صحیح ہے؟)،نبی اکرمﷺ نے فرمایا:ہاں (اس نے سچ کہا)۔ اس نے کہا: قسم ہے اس ذات کی، جس نے آپ کو رسول بناکربھیجاہے، کیا اللہ نے آپ کو اس کا حکم دیاہے؟نبی اکرمﷺ نے فرمایا: 'ہاں، (دیاہے) اس نے کہا:آپ کا قاصد کہتاہے کہ آپ فرماتے ہیں: ہم میں سے ہر اس شخص پر بیت اللہ کا حج فرض ہے جو وہاں تک پہنچنے کی استطاعت رکھتاہو(کیا یہ سچ ہے؟)، نبی اکرمﷺنے فرمایا: 'ہاں، (حج فرض ہے) اس نے کہا: قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو رسول بنا کر بھیجاہے،کیا اللہ نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے؟نبی اکرمﷺ نے فرمایا: 'ہاں' (دیا ہے) تو اس نے کہا: قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا: میں ان میں سے کوئی چیز نہیں چھوڑوں گا اور نہ میں اس میں کسی چیز کا اضافہ کروں گا ۳؎ ، پھریہ کہہ کر وہ واپس چل دیاتب نبی اکرمﷺنے فرمایا: 'اگر اعرابی نے سچ کہا ہے تو وہ جنت میں داخل ہوگا'۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سندسے حسن غریب ہے ،اوراس سندکے علاوہ دوسری سندوں سے بھی یہ حدیث انس رضی اللہ عنہ نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے، ۲- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو سنا: وہ کہہ رہے تھے کہ بعض اہل علم فرماتے ہیں: اس حدیث سے یہ بات نکلتی ہے کہ شاگرد کا استاذ کو پڑھ کرسنانا استاذ سے سننے ہی کی طرح ہے۴؎ انہوں نے استدلال اس طرح سے کیا ہے کہ اعرابی نے نبی اکرمﷺ کومعلومات پیش کیں تونبی اکرمﷺ نے اس کی تصدیق فرمائی۔
تشریح : ۱؎ : کیونکہ ہمیں سورئہ مائدہ میں نبی اکرمﷺسے سوال کرنے سے روک دیاگیاتھا، اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ کوئی ایساچالاک اعرابی آئے جسے اس ممانعت کاعلم نہ ہو اوروہ آکر آپ سے سوال کرے۔ ۲؎ : اس اعرابی کا نام ضمام بن ثعلبہ تھا۔ ۳؎ : اس اعتقاد کے ساتھ کہ یہ فرض ہے، مسلم کی روایت میں ' والذي بالحق لا أزيد عليهن ولا أنقص 'کے الفاظ آئے ہیں۔ ۴؎ : یعنی سماع من لفظ الشیخ کی طرح القراء ۃ علی الشیخ(استاذ کے پاس شاگردکاپڑھنا) بھی جائزہے، مولف نے اس کے ذریعہ اہل عراق کے ان متشددین کی تردیدکی ہے جو یہ کہتے تھے کہ قراء ۃ علی الشیخ جائزنہیں، صحیح یہ ہے کہ دونوں جائزہیں البتہ اخذحدیث کے طریقوں میں سب سے اعلیٰ طریقہ سماع من لفظ الشیخ (استاذکی زبان سے سننے) کا ہے، اس طریقے میں استاذ اپنی مرویات اپنے حافظہ سے یا اپنی کتاب سے خودروایت کرتاہے اورطلبہ سنتے ہیں اورشاگرداسے روایت کرتے وقت'سمعت، سمعنا، حدثنا، حدثني، أخبرنا، أخبرني، أنبأنا، أنبأني ' کے صیغے استعمال کرتاہے، اس کے برخلاف القراء ۃ علی الشیخ (استاذ پرپڑھنے) کے طریقے میں شاگردشیخ کو اپنے حافظہ سے یاکتاب سے پڑھ کرسناتاہے اس کا دوسرا نام عرض بھی ہے اس صورت میں شاگر د قرأت على فلان يا قري على فلان وأنا أسمع، يا حدثنا فلان قرائة عليه کہہ کرروایت کرتاہے۔ ۱؎ : کیونکہ ہمیں سورئہ مائدہ میں نبی اکرمﷺسے سوال کرنے سے روک دیاگیاتھا، اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ کوئی ایساچالاک اعرابی آئے جسے اس ممانعت کاعلم نہ ہو اوروہ آکر آپ سے سوال کرے۔ ۲؎ : اس اعرابی کا نام ضمام بن ثعلبہ تھا۔ ۳؎ : اس اعتقاد کے ساتھ کہ یہ فرض ہے، مسلم کی روایت میں ' والذي بالحق لا أزيد عليهن ولا أنقص 'کے الفاظ آئے ہیں۔ ۴؎ : یعنی سماع من لفظ الشیخ کی طرح القراء ۃ علی الشیخ(استاذ کے پاس شاگردکاپڑھنا) بھی جائزہے، مولف نے اس کے ذریعہ اہل عراق کے ان متشددین کی تردیدکی ہے جو یہ کہتے تھے کہ قراء ۃ علی الشیخ جائزنہیں، صحیح یہ ہے کہ دونوں جائزہیں البتہ اخذحدیث کے طریقوں میں سب سے اعلیٰ طریقہ سماع من لفظ الشیخ (استاذکی زبان سے سننے) کا ہے، اس طریقے میں استاذ اپنی مرویات اپنے حافظہ سے یا اپنی کتاب سے خودروایت کرتاہے اورطلبہ سنتے ہیں اورشاگرداسے روایت کرتے وقت'سمعت، سمعنا، حدثنا، حدثني، أخبرنا، أخبرني، أنبأنا، أنبأني ' کے صیغے استعمال کرتاہے، اس کے برخلاف القراء ۃ علی الشیخ (استاذ پرپڑھنے) کے طریقے میں شاگردشیخ کو اپنے حافظہ سے یاکتاب سے پڑھ کرسناتاہے اس کا دوسرا نام عرض بھی ہے اس صورت میں شاگر د قرأت على فلان يا قري على فلان وأنا أسمع، يا حدثنا فلان قرائة عليه کہہ کرروایت کرتاہے۔