أَبْوَابُ الزَّكَاةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فِي مَنْعِ الزَّكَاةِ مِنَ التَّشْدِيدِ صحيح حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ التَّمِيمِيُّ الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ الْمَعْرُورِ بْنِ سُوَيْدٍ عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ جِئْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ جَالِسٌ فِي ظِلِّ الْكَعْبَةِ قَالَ فَرَآنِي مُقْبِلًا فَقَالَ هُمْ الْأَخْسَرُونَ وَرَبِّ الْكَعْبَةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ قَالَ فَقُلْتُ مَا لِي لَعَلَّهُ أُنْزِلَ فِيَّ شَيْءٌ قَالَ قُلْتُ مَنْ هُمْ فِدَاكَ أَبِي وَأُمِّي فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُمْ الْأَكْثَرُونَ إِلَّا مَنْ قَالَ هَكَذَا وَهَكَذَا وَهَكَذَا فَحَثَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَعَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ ثُمَّ قَالَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا يَمُوتُ رَجُلٌ فَيَدَعُ إِبِلًا أَوْ بَقَرًا لَمْ يُؤَدِّ زَكَاتَهَا إِلَّا جَاءَتْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْظَمَ مَا كَانَتْ وَأَسْمَنَهُ تَطَؤُهُ بِأَخْفَافِهَا وَتَنْطَحُهُ بِقُرُونِهَا كُلَّمَا نَفِدَتْ أُخْرَاهَا عَادَتْ عَلَيْهِ أُولَاهَا حَتَّى يُقْضَى بَيْنَ النَّاسِ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ مِثْلُهُ وَعَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لُعِنَ مَانِعُ الصَّدَقَةِ وَعَنْ قَبِيصَةَ بْنِ هُلْبٍ عَنْ أَبِيهِ وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ أَبُو عِيسَى حَدِيثُ أَبِي ذَرٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَاسْمُ أَبِي ذَرٍّ جُنْدَبُ بْنُ السَّكَنِ وَيُقَالُ ابْنُ جُنَادَةَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُنِيرٍ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ مُوسَى عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ عَنْ حَكِيمِ بْنِ الدَّيْلَمِ عَنْ الضَّحَّاكِ بْنِ مُزَاحِمٍ قَالَ الْأَكْثَرُونَ أَصْحَابُ عَشَرَةِ آلَافٍ قَالَ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُنِيرٍ مَرْوَزِيٌّ رَجُلٌ صَالِحٌ
کتاب: زکاۃ وصدقات کے احکام ومسائل
زکاۃ نہ نکالنے پر وارد وعیدکا بیان
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہﷺ کے پاس آیا،آپ کعبہ کے سائے میں بیٹھے تھے آپ نے مجھے آتا دیکھاتوفرمایا: 'رب کعبہ کی قسم! قیامت کے دن یہی لوگ خسارے میں ہوں گے' ۲؎ میں نے اپنے جی میں کہا: شاید کوئی چیز میرے بارے میں نازل کی گئی ہو۔میں نے عرض کیا : کون لوگ؟ میرے ماں باپ آپ پرقربان ہوں؟تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: 'یہی لوگ جوبہت مال والے ہیں سوائے ان لوگوں کے جوایسا ایساکرے- آپ نے اپنے دونوں ہاتھ سے لپ بھرکراپنے سامنے اوراپنے دائیں اوراپنے بائیں طرف اشارہ کیا- پھرفرمایا: 'قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، جوبھی آدمی اونٹ اور گائے چھو ڑ کرمرااوراس نے اس کی زکاۃ ادانہیں کی تو قیامت کے دن وہ اس سے زیادہ بھاری اور موٹے ہوکر آئیں گے جتناوہ تھے ۳؎ اور اسے اپنی کھروں سے روندیں گے، اوراپنی سینگوں سے ماریں گے، جب ان کاآخری جانور بھی گزرچکے گاتو پھر پہلالوٹادیا جائے گا ۴؎ یہاں تک کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کردیا جائے ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوذر رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی اسی کے مثل روایت ہے، ۳- علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ زکاۃ روک لینے والے پر لعنت کی گئی ہے ۵؎ ، ۴- (یہ حدیث) قبیصہ بن ہلب نے اپنے والدہلب سے روایت کی ہے ، نیزجابر بن عبداللہ اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ ۵- ضحاک بن مزاحم کہتے ہیں کہ' الأکثرون' سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے پاس دس ہزار (درہم یا دینار) ہوں۔
تشریح :
۱؎ : زکاۃ اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے تیسرارکن ہے، اس کے لغوی معنی بڑھنے اورزیادہ ہونے کے ہیں، زکاۃ کو زکاۃ اسی لیے کہاجاتاہے کہ یہ زکاۃ دینے والے کے مال کو بڑھاتی اورزیادہ کرتی ہے، اورایک قول یہ ہے کہ اس کے معنی پاک کرنے کے ہیں اورزکاۃ کو زکاۃاس لیے بھی کہتے ہیں کہ یہ مال کوپاک کرتی ہے اورصاحب مال کو گناہوں سے پاک کرتی ہے، اس کی فرضیت کے وقت میں علماء کا اختلاف ہے، اکثرعلماء کا یہ قول ہے کہ ۲ھمیں فرض ہوئی اورمحققین علماء کا خیال ہے کہ یہ فرض تومکہ میں ہی ہوگئی تھی مگراس کے تفصیلی احکام مدینہ ۲ھمیں نازل ہوئے۔
۲؎ : یا توآپ کسی فرشتے سے بات کررہے تھے، یا کوئی خیال آیا تو آپ نے ' هم الأخسرون 'فرمایا۔
۳؎ : یہ عذاب عالم حشرمیں ہوگا، حساب وکتاب سے پہلے۔
۴؎ : یعنی روندنے اور سینگ مارنے کا سلسلہ برابرچلتا رہے گا۔
۵؎ : اس کی تخریج سعیدبن منصور، بیہقی ، خطیب اورابن نجارنے کی ہے، لیکن روایت موضوع ہے اس میں ایک راوی محمدبن سعیدبورمی ہے جوکذاب ہے، حدیثیں وضع کرتاتھا۔
۱؎ : زکاۃ اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے تیسرارکن ہے، اس کے لغوی معنی بڑھنے اورزیادہ ہونے کے ہیں، زکاۃ کو زکاۃ اسی لیے کہاجاتاہے کہ یہ زکاۃ دینے والے کے مال کو بڑھاتی اورزیادہ کرتی ہے، اورایک قول یہ ہے کہ اس کے معنی پاک کرنے کے ہیں اورزکاۃ کو زکاۃاس لیے بھی کہتے ہیں کہ یہ مال کوپاک کرتی ہے اورصاحب مال کو گناہوں سے پاک کرتی ہے، اس کی فرضیت کے وقت میں علماء کا اختلاف ہے، اکثرعلماء کا یہ قول ہے کہ ۲ھمیں فرض ہوئی اورمحققین علماء کا خیال ہے کہ یہ فرض تومکہ میں ہی ہوگئی تھی مگراس کے تفصیلی احکام مدینہ ۲ھمیں نازل ہوئے۔
۲؎ : یا توآپ کسی فرشتے سے بات کررہے تھے، یا کوئی خیال آیا تو آپ نے ' هم الأخسرون 'فرمایا۔
۳؎ : یہ عذاب عالم حشرمیں ہوگا، حساب وکتاب سے پہلے۔
۴؎ : یعنی روندنے اور سینگ مارنے کا سلسلہ برابرچلتا رہے گا۔
۵؎ : اس کی تخریج سعیدبن منصور، بیہقی ، خطیب اورابن نجارنے کی ہے، لیکن روایت موضوع ہے اس میں ایک راوی محمدبن سعیدبورمی ہے جوکذاب ہے، حدیثیں وضع کرتاتھا۔