جامع الترمذي - حدیث 550

أَبْوَابُ السَّفَرِ بَاب مَا جَاءَ فِي التَّطَوُّعِ فِي السَّفَرِ​ ضعيف حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ سُلَيْمٍ عَنْ أَبِي بُسْرَةَ الْغِفَارِيِّ عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ صَحِبْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَمَانِيَةَ عَشَرَ شَهْرَا فَمَا رَأَيْتُهُ تَرَكَ الرَّكْعَتَيْنِ إِذَا زَاغَتْ الشَّمْسُ قَبْلَ الظُّهْرِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ أَبُو عِيسَى حَدِيثُ الْبَرَاءِ حَدِيثٌ غَرِيبٌ قَالَ وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْهُ فَلَمْ يَعْرِفْهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ اللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ وَلَمْ يَعْرِفْ اسْمَ أَبِي بُسْرَةَ الْغِفَارِيِّ وَرَآهُ حَسَنًا وَرُوِي عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ لَا يَتَطَوَّعُ فِي السَّفَرِ قَبْلَ الصَّلَاةِ وَلَا بَعْدَهَا وَرُوِيَ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ كَانَ يَتَطَوَّعُ فِي السَّفَرِ ثُمَّ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ بَعْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَأَى بَعْضُ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَتَطَوَّعَ الرَّجُلُ فِي السَّفَرِ وَبِهِ يَقُولُ أَحْمَدُ وَإِسْحَقُ وَلَمْ تَرَ طَائِفَةٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنْ يُصَلَّى قَبْلَهَا وَلَا بَعْدَهَا وَمَعْنَى مَنْ لَمْ يَتَطَوَّعْ فِي السَّفَرِ قَبُولُ الرُّخْصَةِ وَمَنْ تَطَوَّعَ فَلَهُ فِي ذَلِكَ فَضْلٌ كَثِيرٌ وَهُوَ قَوْلُ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ يَخْتَارُونَ التَّطَوُّعَ فِي السَّفَرِ

ترجمہ جامع ترمذی - حدیث 550

کتاب: سفر کے احکام ومسائل سفر میں نفل پڑھنے کا بیان​ براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں رسول اللہﷺ کے ساتھ اٹھارہ مہینے رہا۔لیکن میں نے سورج ڈھلنے کے بعد ظہر سے پہلے کی دونوں رکعتیں کبھی بھی آپ کو چھوڑتے نہیں دیکھا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱- براء رضی اللہ عنہ کی حدیث غریب ہے ،۲- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس کے بارے میں پوچھا تووہ اسے صرف لیث بن سعدہی کی روایت سے جان سکے اور وہ ابوبسرہ غفاری کا نام نہیں جان سکے اور انہوں نے اِسے حسن جانا ۱؎ ،۳- اس باب میں ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی روایت ہے، ۴- ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی اکرمﷺ سفر میں نہ صلاۃ سے پہلے نفل پڑھتے تھے اورنہ اس کے بعد ۲؎ ،۵- اور ابن عمرہی سے مروی ہے وہ نبی اکرمﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ سفر میں نفل پڑھتے تھے ۳؎ ،۶- پھر نبی اکرمﷺ کے بعد اہل علم میں اختلاف ہوگیا،بعض صحابہ کرام کی رائے ہوئی کہ آدمی نفل پڑھے ، یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں،۷- اہل علم کے ایک گروہ کی رائے نہ صلاۃ سے پہلے کوئی نفل پڑھنے کی ہے اور نہ صلاۃ کے بعد۔سفرمیں جولوگ نفل نہیں پڑھتے ہیں ان کامقصودرخصت کوقبول کرناہے اور جو نفل پڑھے تو اس کی بڑی فضیلت ہے۔ یہی اکثر اہل علم کا قول ہے وہ سفرمیں نفل پڑھنے کو پسندکرتے ہیں ۴؎ ۔
تشریح : ۱؎ : دیگرسارے لوگوں نے ان کومجہول قراردیاہے، اورمجہول کی روایت ضعیف ہوتی ہے ۔ ۲؎ یہ صحیح بخاری کی روایت ہے۔ ۳؎ : اس بابت سب سے صحیح اورواضح حدیث ابن عمرکی ہے ، جورقم ۵۴۴پرگزری ، ابن عمر رضی اللہ عنہما کی دلیل نقلی بھی ہے اورعقلی بھی کہ ایک تو رسول اللہﷺاورابوبکروعمر رضی اللہ عنہما سنت راتبہ نہیں پڑھتے تھے، دوسرے اگرسنت راتبہ پڑھنی ہوتی تو اصل فرض میں کمی کرنے کاجومقصدہے وہ فوت ہوجاتا، اگرسنت راتبہ پڑھنی ہوتو فرائض میں کمی کاکیامعنی؟ رہی آپﷺ کے بعض اسفار میں چاشت وغیرہ پڑھنے کی بات ، تو بوقت فرصت عام نوافل کے سب قائل ہیں۔ ۴؎ : عام نوافل پڑھنے کے توسب قائل ہیں مگرسنن راتبہ والی احادیث سنداً کمزورہیں۔ نوٹ:(اس کے راوی 'ابوبُسرہ الغفاری' لین الحدیث ہیں) ۱؎ : دیگرسارے لوگوں نے ان کومجہول قراردیاہے، اورمجہول کی روایت ضعیف ہوتی ہے ۔ ۲؎ یہ صحیح بخاری کی روایت ہے۔ ۳؎ : اس بابت سب سے صحیح اورواضح حدیث ابن عمرکی ہے ، جورقم ۵۴۴پرگزری ، ابن عمر رضی اللہ عنہما کی دلیل نقلی بھی ہے اورعقلی بھی کہ ایک تو رسول اللہﷺاورابوبکروعمر رضی اللہ عنہما سنت راتبہ نہیں پڑھتے تھے، دوسرے اگرسنت راتبہ پڑھنی ہوتی تو اصل فرض میں کمی کرنے کاجومقصدہے وہ فوت ہوجاتا، اگرسنت راتبہ پڑھنی ہوتو فرائض میں کمی کاکیامعنی؟ رہی آپﷺ کے بعض اسفار میں چاشت وغیرہ پڑھنے کی بات ، تو بوقت فرصت عام نوافل کے سب قائل ہیں۔ ۴؎ : عام نوافل پڑھنے کے توسب قائل ہیں مگرسنن راتبہ والی احادیث سنداً کمزورہیں۔ نوٹ:(اس کے راوی 'ابوبُسرہ الغفاری' لین الحدیث ہیں)