جامع الترمذي - حدیث 480

أَبْوَابُ الوِتْرِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ فِي صَلاَةِ الاِسْتِخَارَةِ​ صحيح حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الْمَوَالِي عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَلِّمُنَا الِاسْتِخَارَةَ فِي الْأُمُورِ كُلِّهَا كَمَا يُعَلِّمُنَا السُّورَةَ مِنْ الْقُرْآنِ يَقُولُ إِذَا هَمَّ أَحَدُكُمْ بِالْأَمْرِ فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ مِنْ غَيْرِ الْفَرِيضَةِ ثُمَّ لِيَقُلْ اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْتَخِيرُكَ بِعِلْمِكَ وَأَسْتَقْدِرُكَ بِقُدْرَتِكَ وَأَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ الْعَظِيمِ فَإِنَّكَ تَقْدِرُ وَلَا أَقْدِرُ وَتَعْلَمُ وَلَا أَعْلَمُ وَأَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الْأَمْرَ خَيْرٌ لِي فِي دِينِي وَمَعِيشَتِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي أَوْ قَالَ فِي عَاجِلِ أَمْرِي وَآجِلِهِ فَيَسِّرْهُ لِي ثُمَّ بَارِكْ لِي فِيهِ وَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الْأَمْرَ شَرٌّ لِي فِي دِينِي وَمَعِيشَتِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي أَوْ قَالَ فِي عَاجِلِ أَمْرِي وَآجِلِهِ فَاصْرِفْهُ عَنِّي وَاصْرِفْنِي عَنْهُ وَاقْدُرْ لِي الْخَيْرَ حَيْثُ كَانَ ثُمَّ أَرْضِنِي بِهِ قَالَ وَيُسَمِّي حَاجَتَهُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ وَأَبِي أَيُّوبَ قَالَ أَبُو عِيسَى حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي الْمَوَالِي وَهُوَ شَيْخٌ مَدِينِيٌّ ثِقَةٌ رَوَى عَنْهُ سُفْيَانُ حَدِيثًا وَقَدْ رَوَى عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ الْأَئِمَّةِ وَهُوَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَبِي الْمَوَالِي

ترجمہ جامع ترمذی - حدیث 480

کتاب: صلاۃِ وترکے احکام و مسائل صلاۃِ استخارہ کا بیان​ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ ہمیں ہر معاملے میں استخارہ کرنا ۱؎ اسی طرح سکھاتے جیسے آپ ہمیں قرآن کی سورتیں سکھاتے تھے۔ آپ فرماتے: ' تم میں سے کوئی شخص جب کسی کام کا ارادہ کرے تو دورکعت پڑھے، پھر کہے: 'اللَّہُمَّ إِنِّی أَسْتَخِیرُکَ بِعِلْمِکَ، وَأَسْتَقْدِرُکَ بِقُدْرَتِکَ، وَأَسْأَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ الْعَظِیمِ ، فَإِنَّکَ تَقْدِرُ وَلاَ أَقْدِرُ، وَتَعْلَمُ وَلاَ أَعْلَمُ، وَأَنْتَ عَلاَّمُ الْغُیُوبِ، اللَّہُمَّ إِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ ہَذَا الأَمْرَ خَیْرٌ لِی فِی دِینِی وَمَعِیشَتِی وَعَاقِبَۃِ أَمْرِی'، یاکہے' فِی عَاجِلِ أَمْرِی وَآجِلِہِ' - 'فَیَسِّرْہُ لِی، ثُمَّ بَارِکْ لِی فِیہِ، وَإِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ ہَذَا الأَمْرَ شَرٌّ لِی فِی دِینِی وَمَعِیشَتِی وَعَاقِبَۃِ أَمْرِی'- یا کہے 'فِی عَاجِلِ أَمْرِی وَآجِلِہِ' - فَاصْرِفْہُ عَنِّی، وَاصْرِفْنِی عَنْہُ وَاقْدُرْ لِی الْخَیْرَ حَیْثُ کَانَ، ثُمَّ أَرْضِنِی بِہِ ' (اے اللہ ! میں تیرے علم کے ذریعے تجھ سے بھلائی طلب کرتاہوں، اور تیری طاقت کے ذریعے تجھ سے طاقت طلب کرتاہوں، اورتجھ سے تیر ے فضل کاسوال کرتاہوں،تو قدرت رکھتاہے اورمیں قدرت نہیں رکھتا، توعلم والاہے اورمیں لا علم ہوں، تو تمام غیبوں کوخوب جاننے والا ہے،اے اللہ اگر تو جانتاہے کہ یہ کام میرے حق میں، میرے دین، میری روزی اورانجام کے اعتبارسے (یا آپ نے فرمایا:یامیری دنیااورآخرت کے لحاظ سے )بہترہے، تو اسے تو میرے لیے آسان بنادے اورمجھے اس میں برکت عطافرما، اورا گر توجانتا ہے کہ یہ کام میرے حق میں، میرے دین، میری روزی اورانجام کے اعتبارسے یافرمایامیری دنیا اور آخرت کے لحاظ سے میرے لیے بُراہے تو اسے تومجھ سے پھیر دے اور مجھے اس سے پھیر دے اور میرے لیے خیر مقدر فرما دے وہ جہاں بھی ہو ، پھر مجھے اس پر راضی کردے۔)آپ نے فرمایا:' اور اپنی حاجت کانام لے ' ۲؎ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱- جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح غریب ہے ہم اسے صرف عبدالرحمن بن ابی الموالی کی روایت سے جانتے ہیں،یہ ایک مدنی ثقہ شیخ ہیں، ان سے سفیان نے بھی ایک حدیث روایت کی ہے، اور عبدالرحمن سے دیگرکئی ائمہ نے بھی روایت کی ہے،یہی عبدالرحمن بن زیدبن ابی الموالی ہیں،۲- اس باب میں عبداللہ بن مسعوداور ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہما سے احادیث آئی ہیں۔
تشریح : ۱؎ : استخارہ کے لغوی معنی خیرطلب کرنے کے ہیں،چونکہ اس دعاکے ذریعہ انسان اللہ تعالیٰ سے خیروبھلائیطلب کرتا ہے اس لیے اسے 'دعاء استخارہ' کہاجاتا ہے، اس کامسنون طریقہ یہی ہے کہ فرض صلاۃ کے علاوہ دورکعت پڑھنے کے بعد یہ دعاپڑھی جائے، استخارے کا تعلق صرف مباح کاموں سے ہے، فرائض وواجبات اورسنن ومستحبات کی ادائیگی اورمحرمات ومکروہات شرعیہ سے اجتناب ہر حا ل میں ضروری ہے، ان میں استخارہ نہیں ہے۔ ۲؎ : یعنی: لفظ ' هذا الأمر'(یہ کام)کی جگہ اپنی ضرورت کا نام لے۔اورکسی دوسرے شخص کے لیے استخارہ کرنا کسی بھی حدیث سے ثابت نہیں ہے ، ہر آدمی اپنے لیے استخارہ خودکرے تاکہ اپنی حاجت اپنے رب کریم سے خود باسلوب احسن بیان کرسکے اوراُسے اپنے رب سے خودمانگنے کی عادت پڑے ، یہ جوآج کل دوسروں سے استخارہ کروانے والاعمل جاری ہوچکاہے یہ نری بدعت ہے ،استخارہ کے بعد سوجانا اورخواب دیکھنا وغیرہ بھی نہ نبی اکرمﷺسے ثابت ہے اور نہ ہی صحابہ کرام وتابعین عظام سے بلکہ استخارہ کے بعد کہ جب اسے ایک ، تین پانچ یا سات بار کیا جائے ، دل کا اطمینان ، مطلوبہ عمل کے لیے جس طرف ہوجائے اُسے آدمی اختیارکرلے ، خواب میں بھی اس کی وضاحت ہوسکتی ہے مگرخواب استخارہ کا جزء نہیں ہے ، عورتیں بھی استخارہ خودکرسکتی ہیں، کہیں پرممانعت نہیں۔ ۱؎ : استخارہ کے لغوی معنی خیرطلب کرنے کے ہیں،چونکہ اس دعاکے ذریعہ انسان اللہ تعالیٰ سے خیروبھلائیطلب کرتا ہے اس لیے اسے 'دعاء استخارہ' کہاجاتا ہے، اس کامسنون طریقہ یہی ہے کہ فرض صلاۃ کے علاوہ دورکعت پڑھنے کے بعد یہ دعاپڑھی جائے، استخارے کا تعلق صرف مباح کاموں سے ہے، فرائض وواجبات اورسنن ومستحبات کی ادائیگی اورمحرمات ومکروہات شرعیہ سے اجتناب ہر حا ل میں ضروری ہے، ان میں استخارہ نہیں ہے۔ ۲؎ : یعنی: لفظ ' هذا الأمر'(یہ کام)کی جگہ اپنی ضرورت کا نام لے۔اورکسی دوسرے شخص کے لیے استخارہ کرنا کسی بھی حدیث سے ثابت نہیں ہے ، ہر آدمی اپنے لیے استخارہ خودکرے تاکہ اپنی حاجت اپنے رب کریم سے خود باسلوب احسن بیان کرسکے اوراُسے اپنے رب سے خودمانگنے کی عادت پڑے ، یہ جوآج کل دوسروں سے استخارہ کروانے والاعمل جاری ہوچکاہے یہ نری بدعت ہے ،استخارہ کے بعد سوجانا اورخواب دیکھنا وغیرہ بھی نہ نبی اکرمﷺسے ثابت ہے اور نہ ہی صحابہ کرام وتابعین عظام سے بلکہ استخارہ کے بعد کہ جب اسے ایک ، تین پانچ یا سات بار کیا جائے ، دل کا اطمینان ، مطلوبہ عمل کے لیے جس طرف ہوجائے اُسے آدمی اختیارکرلے ، خواب میں بھی اس کی وضاحت ہوسکتی ہے مگرخواب استخارہ کا جزء نہیں ہے ، عورتیں بھی استخارہ خودکرسکتی ہیں، کہیں پرممانعت نہیں۔