جامع الترمذي - حدیث 471

أَبْوَابُ الوِتْرِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ لاَ وِتْرَانِ فِي لَيْلَةٍ​ صحيح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ مَسْعَدَةَ عَنْ مَيْمُونِ بْنِ مُوسَى الْمَرَئِيِّ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ أُمِّهِ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي بَعْدَ الْوِتْرِ رَكْعَتَيْنِ قَالَ أَبُو عِيسَى وَقَدْ رُوِيَ نَحْوُ هَذَا عَنْ أَبِي أُمَامَةَ وَعَائِشَةَ وَغَيْرِ وَاحِدٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

ترجمہ جامع ترمذی - حدیث 471

کتاب: صلاۃِ وترکے احکام و مسائل ایک رات میں دوبار وتر نہیں​ ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرمﷺ وتر کے بعد دورکعتیں پڑھتے تھے ۱؎ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ابوامامہ ، عائشہ رضی اللہ عنہما اوردیگرکئی لوگوں سے بھی نبی اکرمﷺ سے اسی طرح مروی ہے۔
تشریح : ۱؎ : نووی کے بقول نبی اکرم ﷺ کا وتر کے بعد دو رکعتیں پڑھنا بیان جواز کے لیے تھا، آپ ہمیشہ ایسا نہیں کرتے تھے، نہ کرسکتے تھے کہ آپ نے خود فرمایا تھا : 'وتر کو رات کی صلاۃ (تہجد) میں سب سے اخیر میں کردو' تو آپ خود اس کی خلاف ورزی کیسے کرسکتے تھے، یا پھر یہ مانیے کہ یہ آپ کے ساتھ خاص تھا، اور شاید یہی وجہ ہے کہ امت کے علماء میں اس پر تعامل نہیں پایا گیا۔ واللہ اعلم۔ ۱؎ : نووی کے بقول نبی اکرم ﷺ کا وتر کے بعد دو رکعتیں پڑھنا بیان جواز کے لیے تھا، آپ ہمیشہ ایسا نہیں کرتے تھے، نہ کرسکتے تھے کہ آپ نے خود فرمایا تھا : 'وتر کو رات کی صلاۃ (تہجد) میں سب سے اخیر میں کردو' تو آپ خود اس کی خلاف ورزی کیسے کرسکتے تھے، یا پھر یہ مانیے کہ یہ آپ کے ساتھ خاص تھا، اور شاید یہی وجہ ہے کہ امت کے علماء میں اس پر تعامل نہیں پایا گیا۔ واللہ اعلم۔