أَبْوَابُ الوِتْرِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ يَنَامُ عَنِ الْوِتْرِ أَوْ يَنْسَاهُ صحيح حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ نَامَ عَنْ وِتْرِهِ فَلْيُصَلِّ إِذَا أَصْبَحَ قَالَ أَبُو عِيسَى وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ الْحَدِيثِ الْأَوَّلِ قَالَ أَبُو عِيسَى سَمِعْت أَبَا دَاوُدَ السِّجْزِيَّ يَعْنِي سُلَيْمَانَ بْنَ الْأَشْعَثِ يَقُولُ سَأَلْتُ أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ فَقَالَ أَخُوهُ عَبْدُ اللَّهِ لَا بَأْسَ بِهِ قَالَ و سَمِعْت مُحَمَّدًا يَذْكُرُ عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّهُ ضَعَّفَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ و قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ثِقَةٌ قَالَ وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ بِالْكُوفَةِ إِلَى هَذَا الْحَدِيثِ فَقَالُوا يُوتِرُ الرَّجُلُ إِذَا ذَكَرَ وَإِنْ كَانَ بَعْدَ مَا طَلَعَتْ الشَّمْسُ وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ
کتاب: صلاۃِ وترکے احکام و مسائل
وترپڑھے بغیر سوجانے یاوترکے بھول جانے کا بیان
زید بن اسلم (مرسلاً) کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:' جووترپڑھے بغیرسوجائے ،اورجب صبح کواٹھے تو پڑھ لے'۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ پہلی حدیث سے زیادہ صحیح ہے ۱؎ ، ۲- میں نے أ بوداود سجزی یعنی سلیمان بن اشعث کو سنا، وہ کہہ رہے تھے کہ میں نے احمد بن حنبل سے عبدالرحمن بن زید بن اسلم کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: ان کے بھائی عبداللہ میں کوئی مضائقہ نہیں، ۳- میں نے محمد(بن اسماعیل بخاری) کو ذکر کرتے سنا، وہ علی بن عبداللہ (ابن المدینی) سے روایت کررہے تھے کہ انہوں نے عبدالرحمن بن زید بن اسلم کو ضعیف قراردیاہے اور کہاہے کہ(ان کے بھائی) عبداللہ بن زید بن اسلم ثقہ ہیں، ۴- کوفہ کے بعض اہل علم اسی حدیث کی طرف گئے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ آدمی وتر پڑھ لے جب اسے یاد آجائے، گو سورج نکلنے کے بعد یادآئے۔ یہی سفیان ثوری بھی کہتے ہیں ۲؎ ۔
تشریح :
۱؎ : کیونکہ پہلی حدیث اگرچہ مرفوع ہے مگرعبدالرحمن بن زیدبن اسلم کے طریق سے ہے ، اوروہ متکلم فیہ ہیں، جبکہ ان کے بھائی عبداللہ ثقہ ہیں، یعنی اس حدیث کا مرسل ہوناہی زیادہ صحیح ہے ۔
وضاحت ۲؎ : اس حدیث سے وترکی قضاثابت ہوتی ہے ، اس کے قائل بہت سے صحابہ اورائمہ ہیں، اس مسئلہ میں اگرچہ بہت سے اقوال ہیں مگراحتیاط کی بات یہی ہے کہ وتراگرکسی وجہ سے رہ جائے تو قضاکرلے، چاہے جب بھی کرے ، کیونکہ وترسنن ونوافل صلاتوں کو طاق بنانے کے لیے مشروع ہوئی ہے ، اوراگرکوئی مسافر ہو اوردن بھرمیں کسی وقت بھی دورکعت بھی سنت نہ پڑھ سکاہو تو ایسے آدمی کو وترکی ضرورت ہی نہیں ، پھرعشاء کے بعددورکعت سنت پڑھ لے تب وترپڑھے۔
نوٹ:(شواہد ومتابعات کی بناپر یہ روایت صحیح ہے، ورنہ یہ خود مرسل روایت ہے)
۱؎ : کیونکہ پہلی حدیث اگرچہ مرفوع ہے مگرعبدالرحمن بن زیدبن اسلم کے طریق سے ہے ، اوروہ متکلم فیہ ہیں، جبکہ ان کے بھائی عبداللہ ثقہ ہیں، یعنی اس حدیث کا مرسل ہوناہی زیادہ صحیح ہے ۔
وضاحت ۲؎ : اس حدیث سے وترکی قضاثابت ہوتی ہے ، اس کے قائل بہت سے صحابہ اورائمہ ہیں، اس مسئلہ میں اگرچہ بہت سے اقوال ہیں مگراحتیاط کی بات یہی ہے کہ وتراگرکسی وجہ سے رہ جائے تو قضاکرلے، چاہے جب بھی کرے ، کیونکہ وترسنن ونوافل صلاتوں کو طاق بنانے کے لیے مشروع ہوئی ہے ، اوراگرکوئی مسافر ہو اوردن بھرمیں کسی وقت بھی دورکعت بھی سنت نہ پڑھ سکاہو تو ایسے آدمی کو وترکی ضرورت ہی نہیں ، پھرعشاء کے بعددورکعت سنت پڑھ لے تب وترپڑھے۔
نوٹ:(شواہد ومتابعات کی بناپر یہ روایت صحیح ہے، ورنہ یہ خود مرسل روایت ہے)