جامع الترمذي - حدیث 461

أَبْوَابُ الوِتْرِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ فِي الْوِتْرِ بِرَكْعَةٍ​ صحيح حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ سِيرِينَ قَالَ سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ فَقُلْتُ أُطِيلُ فِي رَكْعَتَيْ الْفَجْرِ فَقَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي مِنْ اللَّيْلِ مَثْنَى مَثْنَى وَيُوتِرُ بِرَكْعَةٍ وَكَانَ يُصَلِّي الرَّكْعَتَيْنِ وَالْأَذَانُ فِي أُذُنِهِ يَعْنِي يُخَفِّفُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ وَجَابِرٍ وَالْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ وَأَبِي أَيُّوبَ وَابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَى حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ رَأَوْا أَنْ يَفْصِلَ الرَّجُلُ بَيْنَ الرَّكْعَتَيْنِ وَالثَّالِثَةِ يُوتِرُ بِرَكْعَةٍ وَبِهِ يَقُولُ مَالِكٌ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ

ترجمہ جامع ترمذی - حدیث 461

کتاب: صلاۃِ وترکے احکام و مسائل ایک رکعت وتر پڑھنے کا بیان​ انس بن سیرین کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا: کیا میں فجر کی دورکعت سنت لمبی پڑھوں؟ توانہوں نے کہا: نبی اکرمﷺ تہجد دو دو رکعت پڑھتے تھے، اور وتر ایک رکعت،اورفجرکی دورکعت سنت پڑھتے (گویاکہ) تکبیر آپ کے کانوں میں ہورہی ہوتی ۱؎ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عمر کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں عائشہ، جابر ، فضل بن عباس ، ابوایوب انصاری اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- صحابہ وتابعین میں سے بعض اہل علم کااسی پر عمل ہے، ان کا خیال ہے کہ آدمی دو رکعتوں اور تیسری رکعت کے درمیان (سلام کے ذریعہ )فصل کرے ،ایک رکعت سے وتر کرے ۔ مالک، شافعی ، احمد اور اسحاق بن راہویہ یہی کہتے ہیں ۲؎ ۔
تشریح : ۱؎ : ' گویا تکبیرآپﷺ کے دونوں کانومیں ہورہی ہوتی 'کا مطلب ہے کہ فجرکی دونوں سنتیں اتنی سرعت سے ادافرماتے گویاتکبیرکی آواز آپ کے کانوں میں آرہی ہے اورآپ تکبیرتحریمہ فوت ہوجانے کے اندیشے سے اسے جلدی جلدی پڑھ رہے ہوں ۔ ۲؎ : نبی اکرمﷺکی وترکے بارے میں وارداحادیث میں یہ صورت بھی ہے ، اوربغیرسلام کے تین پڑھنے کی صورت بھی مروی ہے، اس معاملہ میں امت پر وسعت کی گئی ہے ، اس کوتنگی میں محصور کردینا مناسب نہیں ہے۔نبی اکرمﷺکا اس ضمن میں زیادہ عمل ، وترایک رکعت پڑھنے پر تھا اس کے لیے احادیث وآثار تین ، پانچ اوران سے زیادہ وتروں کی نسبت کثرت سے مروی ہے۔ ۱؎ : ' گویا تکبیرآپﷺ کے دونوں کانومیں ہورہی ہوتی 'کا مطلب ہے کہ فجرکی دونوں سنتیں اتنی سرعت سے ادافرماتے گویاتکبیرکی آواز آپ کے کانوں میں آرہی ہے اورآپ تکبیرتحریمہ فوت ہوجانے کے اندیشے سے اسے جلدی جلدی پڑھ رہے ہوں ۔ ۲؎ : نبی اکرمﷺکی وترکے بارے میں وارداحادیث میں یہ صورت بھی ہے ، اوربغیرسلام کے تین پڑھنے کی صورت بھی مروی ہے، اس معاملہ میں امت پر وسعت کی گئی ہے ، اس کوتنگی میں محصور کردینا مناسب نہیں ہے۔نبی اکرمﷺکا اس ضمن میں زیادہ عمل ، وترایک رکعت پڑھنے پر تھا اس کے لیے احادیث وآثار تین ، پانچ اوران سے زیادہ وتروں کی نسبت کثرت سے مروی ہے۔