جامع الترمذي - حدیث 453

أَبْوَابُ الوِتْرِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ أَنَّ الْوِتْرَ لَيْسَ بِحَتْمٍ​ صحيح حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَقَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ عَنْ عَلِيٍّ قَالَ الْوِتْرُ لَيْسَ بِحَتْمٍ كَصَلَاتِكُمْ الْمَكْتُوبَةِ وَلَكِنْ سَنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ إِنَّ اللَّهَ وِتْرٌ يُحِبُّ الْوِتْرَ فَأَوْتِرُوا يَا أَهْلَ الْقُرْآنِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَابْنِ مَسْعُودٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَى حَدِيثُ عَلِيٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ

ترجمہ جامع ترمذی - حدیث 453

کتاب: صلاۃِ وترکے احکام و مسائل وترکے فرض نہ ہونے کا بیان علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: وترتمہاری فرض صلاۃ کی طرح لازمی نہیں ہے ۱؎ ، بلکہ رسول اللہﷺ نے اسے سنت قرار دیا اور فرمایا: اللہ وتر(طاق) ۲؎ ہے اوروترکو پسند کرتاہے، اے اہل قرآن! ۳؎ تم وتر پڑھا کرو۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- علی رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن ہے،۲- اس باب میں ابن عمر، ابن مسعود اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تشریح : ۱؎ : اس سے معلوم ہوا کہ وترفرض اورلازم نہیں ہے بلکہ سنت مؤکدہ ہے۔ ۲؎ : اللہ وتر(طاق )ہے کا مطلب ہے کہ وہ اپنی ذات وصفات اورافعال میں یکتاہے اس کا کو ئی ثانی نہیں،صلاة الوتر کو بھی اسی لیے وترکہا جاتاہے کہ یہ ایک یا تین یا پانچ یا سات وغیرہ عددمیں اداکی جاتی ہے اسے جفت اعدادمیں پڑھنا جائزنہیں۔ ۳؎ : صحابہء کرام رضی اللہ عنہم کو نبی اکرمﷺ نے اہل قرآن کہا، اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ حدیث کو نہیں مانتے تھے، اہل قرآن کا مطلب ہے شریعت اسلامیہ کے متبع و پیروکاراورشریعت قرآن وحدیث دونوں کے مجموعے کانام ہے،نہ کہ صرف قرآن کا،جیساکہ آج کل قرآن کے ماننے کے دعویداروں کا ایک گروہ کہتا ہے، یہ گروہ منکرین حدیث کا ہے ، حدیث کا منکرہے اس لیے حقیقت میں وہ قرآن کا بھی منکر ہے کیونکہ حدیث کے بغیرنہ توقرآن کو سمجھاجاسکتا ہے اورنہ اس پر عمل کیا جاسکتاہے۔ نوٹ:(سندمیں 'ابواسحاق سبیعی مختلط ہیں، نیز عاصم میں قدر ے کلام ہے ، لیکن متابعات وشواہد کی بناپر یہ حدیث صحیح ہے) ۱؎ : اس سے معلوم ہوا کہ وترفرض اورلازم نہیں ہے بلکہ سنت مؤکدہ ہے۔ ۲؎ : اللہ وتر(طاق )ہے کا مطلب ہے کہ وہ اپنی ذات وصفات اورافعال میں یکتاہے اس کا کو ئی ثانی نہیں،صلاة الوتر کو بھی اسی لیے وترکہا جاتاہے کہ یہ ایک یا تین یا پانچ یا سات وغیرہ عددمیں اداکی جاتی ہے اسے جفت اعدادمیں پڑھنا جائزنہیں۔ ۳؎ : صحابہء کرام رضی اللہ عنہم کو نبی اکرمﷺ نے اہل قرآن کہا، اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ حدیث کو نہیں مانتے تھے، اہل قرآن کا مطلب ہے شریعت اسلامیہ کے متبع و پیروکاراورشریعت قرآن وحدیث دونوں کے مجموعے کانام ہے،نہ کہ صرف قرآن کا،جیساکہ آج کل قرآن کے ماننے کے دعویداروں کا ایک گروہ کہتا ہے، یہ گروہ منکرین حدیث کا ہے ، حدیث کا منکرہے اس لیے حقیقت میں وہ قرآن کا بھی منکر ہے کیونکہ حدیث کے بغیرنہ توقرآن کو سمجھاجاسکتا ہے اورنہ اس پر عمل کیا جاسکتاہے۔ نوٹ:(سندمیں 'ابواسحاق سبیعی مختلط ہیں، نیز عاصم میں قدر ے کلام ہے ، لیکن متابعات وشواہد کی بناپر یہ حدیث صحیح ہے)