أَبْوَابُ الصَّلاَةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ إِذَا أُقِيمَتِ الصَّلاَةُ فَلاَ صَلاَةَ إِلاَّ الْمَكْتُوبَةُ صحيح حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ إِسْحَقَ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ قَال سَمِعْتُ عَطَاءَ بْنَ يَسَارٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أُقِيمَتْ الصَّلَاةُ فَلَا صَلَاةَ إِلَّا الْمَكْتُوبَةُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ بُحَيْنَةَ وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَرْجِسَ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَأَنَسٍ قَالَ أَبُو عِيسَى حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَهَكَذَا رَوَى أَيُّوبُ وَوَرْقَاءُ بْنُ عُمَرَ وَزِيَادُ بْنُ سَعْدٍ وَإِسْمَعِيلُ بْنُ مُسْلِمٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ جُحَادَةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَوَى حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ وَسُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ فَلَمْ يَرْفَعَاهُ وَالْحَدِيثُ الْمَرْفُوعُ أَصَحُّ عِنْدَنَا وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ إِذَا أُقِيمَتْ الصَّلَاةُ أَنْ لَا يُصَلِّيَ الرَّجُلُ إِلَّا الْمَكْتُوبَةَ وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَابْنُ الْمُبَارَكِ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ رَوَاهُ عَيَّاشُ بْنُ عَبَّاسٍ الْقِتْبَانِيُّ الْمِصْرِيُّ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَ هَذَا
کتاب: صلاۃ کے احکام ومسائل
جب جماعت کھڑی ہوجائے توفرض کے سوا کوئی صلاۃ جائز نہیں ہے
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:' جب جماعت کھڑی ہوجائے ۱؎ تو فرض صلاۃ ۲؎ کے سوا کوئی صلاۃ(جائز) نہیں' ۳؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ کی حدیث حسن ہے،۲- اسی طرح ایک دوسری سند سے بھی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے،۳- اس باب میں ابن بحینہ ، عبداللہ بن عمرو، عبداللہ بن سرجس، ابن عباس اور انس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۴- اور حماد بن زید اور سفیان بن عیینہ نے بھی عمرو بن دینار سے روایت کی ہے لیکن ان دونوں نے اسے مرفوع نہیں کیاہے اور مرفوع حدیث ہی ہمارے نزدیک زیادہ صحیح ہے، ۵- سفیان ثوری، ابن مبارک،شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ اسی کے قائل ہیں، ۶- اس کے علاوہ اور(ایک تیسری) سند سے بھی یہ حدیث بواسطہ ابوہریرہ نبی اکرمﷺ سے مروی ہے۔ اورانہوں نے نبی اکرمﷺسے روایت کی ہے - (جیسے) عیاش بن عباس قتبانی مصری ابوسلمہ سے ، اورابوسلمہ نے ابوہریرہ سے اور ابوہریرہ نے نبی اکرمﷺ سے اسی طرح روایت کی ہے۔
تشریح :
۱؎ : یعنی اقامت شروع ہوجائے۔
۲؎ : یعنی جس کے لیے اقامت کہی گئی ہے۔
۳؎ : یہ حدیث اس بات پردلالت کرتی ہے کہ فرض صلاۃ کے لیے تکبیرہوجائے تو نفل پڑھنا جائزنہیں،خواہ وہ رواتب ہی کیوں نہ ہوں، بعض لوگوں نے فجرکی سنت کو اس سے مستثنیٰ کیا ہے، لیکن یہ استثناء صحیح نہیں، اس لیے کہ مسلم بن خالدکی روایت میں کہ جسے انہوں نے عمروبن دینارے سے روایت کی ہے مزیدواردہے،' قيل يارسول الله ولا ركعتي الفجر قال ولا ركعتي الفجر'اس کی تخریج ابن عدی نے کامل میں یحییٰ بن نصربن حاجب کے ترجمہ میں کی ہے، اور اس کی سند کو حسن کہا ہے، اورابوہریرہ کی روایت جس کی تخریج بیہقی نے کی ہے اور جس میں ' إلا ركعتي الصبح ' کااضافہ ہے: کاجواب یہ ہے کہ اس زیادتی کے متعلق بیہقی خودفرماتے ہیں'هذه الزيادة لا أصل لها'یعنی یہ اضافہ بے بنیادہے اس کی سندمیں حجاج بن نصراورعبادبن کثیرہیں یہ دونوں ضعیف ہیں،اس لیے اس سے استدلال صحیح نہیں۔
۱؎ : یعنی اقامت شروع ہوجائے۔
۲؎ : یعنی جس کے لیے اقامت کہی گئی ہے۔
۳؎ : یہ حدیث اس بات پردلالت کرتی ہے کہ فرض صلاۃ کے لیے تکبیرہوجائے تو نفل پڑھنا جائزنہیں،خواہ وہ رواتب ہی کیوں نہ ہوں، بعض لوگوں نے فجرکی سنت کو اس سے مستثنیٰ کیا ہے، لیکن یہ استثناء صحیح نہیں، اس لیے کہ مسلم بن خالدکی روایت میں کہ جسے انہوں نے عمروبن دینارے سے روایت کی ہے مزیدواردہے،' قيل يارسول الله ولا ركعتي الفجر قال ولا ركعتي الفجر'اس کی تخریج ابن عدی نے کامل میں یحییٰ بن نصربن حاجب کے ترجمہ میں کی ہے، اور اس کی سند کو حسن کہا ہے، اورابوہریرہ کی روایت جس کی تخریج بیہقی نے کی ہے اور جس میں ' إلا ركعتي الصبح ' کااضافہ ہے: کاجواب یہ ہے کہ اس زیادتی کے متعلق بیہقی خودفرماتے ہیں'هذه الزيادة لا أصل لها'یعنی یہ اضافہ بے بنیادہے اس کی سندمیں حجاج بن نصراورعبادبن کثیرہیں یہ دونوں ضعیف ہیں،اس لیے اس سے استدلال صحیح نہیں۔