أَبْوَابُ الصَّلاَةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ فِي الصَّلاَةِ عَلَى الدَّابَّةِ فِي الطِّينِ وَالْمَطَرِ ضعيف حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى حَدَّثَنَا شَبَابَةُ بْنُ سَوَّارٍ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ الرَّمَّاحِ الْبَلْخِيُّ عَنْ كَثِيرِ بْنِ زِيَادٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ بْنِ يَعْلَى بْنِ مُرَّةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ أَنَّهُمْ كَانُوا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَسِيرٍ فَانْتَهَوْا إِلَى مَضِيقٍ وَحَضَرَتْ الصَّلَاةُ فَمُطِرُوا السَّمَاءُ مِنْ فَوْقِهِمْ وَالْبِلَّةُ مِنْ أَسْفَلَ مِنْهُمْ فَأَذَّنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَلَى رَاحِلَتِهِ وَأَقَامَ أَوْ أَقَامَ فَتَقَدَّمَ عَلَى رَاحِلَتِهِ فَصَلَّى بِهِمْ يُومِئُ إِيمَاءً يَجْعَلُ السُّجُودَ أَخْفَضَ مِنْ الرُّكُوعِ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ تَفَرَّدَ بِهِ عُمَرُ بْنُ الرَّمَّاحِ الْبَلْخِيُّ لَا يُعْرَفُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِهِ وَقَدْ رَوَى عَنْهُ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ وَكَذَلِكَ رُوِيَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّهُ صَلَّى فِي مَاءٍ وَطِينٍ عَلَى دَابَّتِهِ وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ وَبِهِ يَقُولُ أَحْمَدُ وَإِسْحَقُ
کتاب: صلاۃ کے احکام ومسائل
کیچڑ اور بارش میں سواری پرصلاۃ پڑھ لینے کا بیان
یعلی بن مرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ لوگ ایک سفرمیں نبی اکرمﷺ کے ساتھ تھے، وہ ایک تنگ جگہ پہنچے تھے کہ صلاۃ کا وقت آ گیا ،اوپر سے بارش ہونے لگی ، اورنیچے کیچڑ ہوگئی، رسول اللہﷺ نے اپنی سواری ہی پر اذان دی اور اقامت کہی اور سواری ہی پر آگے بڑھے اورانہیں صلاۃ پڑھائی،آپ اشارہ سے صلاۃ پڑھتے تھے، سجدہ میں رکوع سے قدرے زیادہ جھکتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، عمر بن رماح بلخی اس کے روایت کرنے میں منفردہیں۔ یہ صرف انہیں کی سند سے جانی جاتی ہے۔اور ان سے یہ حدیث اہل علم میں سے کئی لوگوں نے روایت کی ہے، ۲- انس بن مالک سے بھی اسی طرح مروی ہے کہ انہوں نے پانی اور کیچڑ میں اپنی سواری پر صلاۃ پڑھی، ۳- اوراسی پراہل علم کا عمل ہے۔احمد اوراسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں ۱؎ ۔
تشریح :
۱؎ : جب ایسی صورت حال پیش آجائے اور دوسری جگہ وقت کے اندر ملنے کا امکان نہ ہو تو صلاۃ کا قضا کرنے سے بہتر اس طرح سے صلاۃ ادا کرلینا ہے۔
نوٹ:(سندمیں 'عمروبن عثمان'مجہول الحال اورعثمان بن یعلی'مجہول العین ہیں)
۱؎ : جب ایسی صورت حال پیش آجائے اور دوسری جگہ وقت کے اندر ملنے کا امکان نہ ہو تو صلاۃ کا قضا کرنے سے بہتر اس طرح سے صلاۃ ادا کرلینا ہے۔
نوٹ:(سندمیں 'عمروبن عثمان'مجہول الحال اورعثمان بن یعلی'مجہول العین ہیں)