جامع الترمذي - حدیث 399

أَبْوَابُ الصَّلاَةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ يُسَلِّمُ فِي الرَّكْعَتَيْنِ مِنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ​ صحيح حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنٌ حَدَّثَنَا مَالِكٌ عَنْ أَيُّوبَ بْنِ أَبِي تَمِيمَةَ وَهُوَ أَيُّوبُ السَّخْتِيَانِيُّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْصَرَفَ مِنْ اثْنَتَيْنِ فَقَالَ لَهُ ذُو الْيَدَيْنِ أَقُصِرَتْ الصَّلَاةُ أَمْ نَسِيتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَصَدَقَ ذُو الْيَدَيْنِ فَقَالَ النَّاسُ نَعَمْ فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى اثْنَتَيْنِ أُخْرَيَيْنِ ثُمَّ سَلَّمَ ثُمَّ كَبَّرَ فَسَجَدَ مِثْلَ سُجُودِهِ أَوْ أَطْوَلَ ثُمَّ كَبَّرَ فَرَفَعَ ثُمَّ سَجَدَ مِثْلَ سُجُودِهِ أَوْ أَطْوَلَ قَالَ أَبُو عِيسَى وَفِي الْبَاب عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ وَابْنِ عُمَرَ وَذِي الْيَدَيْنِ قَالَ أَبُو عِيسَى وَحَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي هَذَا الْحَدِيثِ فَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْكُوفَةِ إِذَا تَكَلَّمَ فِي الصَّلَاةِ نَاسِيًا أَوْ جَاهِلًا أَوْ مَا كَانَ فَإِنَّهُ يُعِيدُ الصَّلَاةَ وَاعْتَلُّوا بِأَنَّ هَذَا الْحَدِيثَ كَانَ قَبْلَ تَحْرِيمِ الْكَلَامِ فِي الصَّلَاةِ قَالَ وَأَمَّا الشَّافِعِيُّ فَرَأَى هَذَا حَدِيثًا صَحِيحًا فَقَالَ بِهِ و قَالَ هَذَا أَصَحُّ مِنْ الْحَدِيثِ الَّذِي رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الصَّائِمِ إِذَا أَكَلَ نَاسِيًا فَإِنَّهُ لَا يَقْضِي وَإِنَّمَا هُوَ رِزْقٌ رَزَقَهُ اللَّهُ قَالَ الشَّافِعِيُّ وَفَرَّقَ هَؤُلَاءِ بَيْنَ الْعَمْدِ وَالنِّسْيَانِ فِي أَكْلِ الصَّائِمِ بِحَدِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ و قَالَ أَحْمَدُ فِي حَدِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ إِنْ تَكَلَّمَ الْإِمَامُ فِي شَيْءٍ مِنْ صَلَاتِهِ وَهُوَ يَرَى أَنَّهُ قَدْ أَكْمَلَهَا ثُمَّ عَلِمَ أَنَّهُ لَمْ يُكْمِلْهَا يُتِمُّ صَلَاتَهُ وَمَنْ تَكَلَّمَ خَلْفَ الْإِمَامِ وَهُوَ يَعْلَمُ أَنَّ عَلَيْهِ بَقِيَّةً مِنْ الصَّلَاةِ فَعَلَيْهِ أَنْ يَسْتَقْبِلَهَا وَاحْتَجَّ بِأَنَّ الْفَرَائِضَ كَانَتْ تُزَادُ وَتُنْقَصُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنَّمَا تَكَلَّمَ ذُو الْيَدَيْنِ وَهُوَ عَلَى يَقِينٍ مِنْ صَلَاتِهِ أَنَّهَا تَمَّتْ وَلَيْسَ هَكَذَا الْيَوْمَ لَيْسَ لِأَحَدٍ أَنْ يَتَكَلَّمَ عَلَى مَعْنَى مَا تَكَلَّمَ ذُو الْيَدَيْنِ لِأَنَّ الْفَرَائِضَ الْيَوْمَ لَا يُزَادُ فِيهَا وَلَا يُنْقَصُ قَالَ أَحْمَدُ نَحْوًا مِنْ هَذَا الْكَلَامِ و قَالَ إِسْحَقُ نَحْوَ قَوْلِ أَحْمَدَ فِي هَذَا الْبَابِ

ترجمہ جامع ترمذی - حدیث 399

کتاب: صلاۃ کے احکام ومسائل غلطی سے ظہر یا عصر کی دوہی رکعت میں سلام پھیر دینے والے کاحکم​ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ(ظہریا عصرکی) دورکعت پڑھ کر (مقتدیوں کی طرف) پلٹے تو ذوالیدین نے آپ سے پوچھا: اللہ کے رسول! کیا صلاۃ کم کردی گئی ہے یا آپ بھول گئے ہیں؟ تو آپﷺنے پوچھا: 'کیا ذوالیدین سچ کہہ رہے ہیں؟' لوگوں نے عرض کیا: ہاں ( آپ نے دوہی رکعت پڑھی ہیں) تورسول اللہﷺ کھڑے ہوئے اور آخری دونوں رکعتیں پڑھیں پھر سلام پھیرا، پھر اللہ اکبرکہا، پھراپنے پہلے سجدہ کی طرح یا اس سے کچھ لمباسجدہ کیا، پھر اللہ اکبرکہا اور سراٹھا یا، پھراپنے اسی سجدہ کی طرح یا اس سے کچھ لمبا سجدہ کیا۔ (یعنی سجدہ سہو کیا) امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں عمران بن حصین ، ابن عمر، ذوالیدین رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳- اس حدیث کے بارے میں اہل علم کے مابین اختلاف ہے۔بعض اہل کوفہ کہتے ہیں کہ جب کوئی صلاۃ میں بھول کر یا لاعلمی میں یا کسی بھی وجہ سے بات کربیٹھے تو اُسے نئے سرے سے صلاۃ دہرانی ہوگی۔ وہ اس حدیث میں مذکور واقعہ کی تاویل یہ کرتے ہیں کہ یہ واقعہ صلاۃ میں بات چیت کرنے کی حرمت سے پہلے کا ہے ۱؎ ، ۴- رہے امام شافعی تو انہوں نے اس حدیث کوصحیح جاناہے اور اسی کے مطابق انہوں نے فتویٰ دیاہے ، ان کا کہنا ہے کہ یہ حدیث اُس حدیث سے زیادہ صحیح ہے جو صائم کے سلسلے میں مروی ہے کہ جب وہ بھول کر کھالے تواس پر صوم کی قضا نہیں ،کیوں کہ وہ اللہ کا دیا ہوا رزق ہے۔ شافعی کہتے ہیں کہ ان لوگوں نے صائم کے قصداً اوربھول کرکھانے میں جو تفریق کی ہے وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کی وجہ سے ہے ، ۵- امام احمد ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کے متعلق کہتے ہیں کہ اگر امام یہ سمجھ کر کہ اس کی صلاۃ پوری ہوچکی ہے کوئی بات کرلے پھر اسے معلوم ہو کہ اس کی صلاۃ پوری نہیں ہوئی ہے تووہ اپنی صلاۃ پوری کرلے، اورجو امام کے پیچھے مقتدی ہو اوربات کر لے اوریہ جانتا ہو کہ ابھی کچھ صلاۃ اس کے ذمہ باقی ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ اسے دوبارہ پڑھے، انہوں نے اس بات سے دلیل پکڑی ہے کہ رسول اللہﷺکے زمانے میں فرائض کم یازیادہ کئے جاسکتے تھے۔اور ذوالیدین رضی اللہ عنہ نے جو بات کی تھی تو وہ محض اس وجہ سے کہ انہیں یقین تھاکہ صلاۃ کامل ہوچکی ہے اور اب کسی کے لئے اس طرح بات کرنا جائز نہیں جو ذوالیدین کے لیے جائزہوگیا تھا، کیوں کہ اب فرائض میں کمی بیشی نہیں ہوسکتی ۱؎ ،۶- احمد کا قول بھی کچھ اسی سے ملتا جلتا ہے، اسحاق بن راہویہ نے بھی اس باب میں احمدجیسی بات کہی ہے۔
تشریح : ۱؎ : اس پران کے پاس کوئی ٹھوس دلیل نہیں، صرف یہ کمزوردعوی ہے کہ یہ واقعہ صلاۃ میں بات چیت ممنوع ہو نے سے پہلے کا ہے ، کیونکہ ذوالیدین رضی اللہ کا انتقال غزوئہ بدرمیں ہوگیاتھا، اورابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہ واقعہ کسی صحابی سے سن کر بیان کیا ، حالانکہ بدرمیں ذوالشمالین رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی تھی نہ کہ ذوالیدین کی ، نیز ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے صاف صاف بیان کیاہے کہ میں اس واقعہ میں تھا(جیسا کہ مسلم اوراحمدکی روایت میں ہے)پس یہ واقعہ صلاۃ میں بات چیت ممنوع ہو نے کے بعدکا ہے ۔ ۲؎ : یہ بات مبنی بردلیل نہیں ہے اگربات ایسی ہی تھی تو آپ ﷺ نے اس وقت اس کی وضاحت کیوں نہیں فرمادی ، اصولیین کے یہاں یہ مسلمہ اصول ہے کہ شارع علیہ السلام(نبی اکرمﷺ)کے لیے یہ جائزنہیں تھاکہ کسی بات کو بتانے کی ضرورت ہواورآپ نہ بتائیں۔ ۱؎ : اس پران کے پاس کوئی ٹھوس دلیل نہیں، صرف یہ کمزوردعوی ہے کہ یہ واقعہ صلاۃ میں بات چیت ممنوع ہو نے سے پہلے کا ہے ، کیونکہ ذوالیدین رضی اللہ کا انتقال غزوئہ بدرمیں ہوگیاتھا، اورابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہ واقعہ کسی صحابی سے سن کر بیان کیا ، حالانکہ بدرمیں ذوالشمالین رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی تھی نہ کہ ذوالیدین کی ، نیز ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے صاف صاف بیان کیاہے کہ میں اس واقعہ میں تھا(جیسا کہ مسلم اوراحمدکی روایت میں ہے)پس یہ واقعہ صلاۃ میں بات چیت ممنوع ہو نے کے بعدکا ہے ۔ ۲؎ : یہ بات مبنی بردلیل نہیں ہے اگربات ایسی ہی تھی تو آپ ﷺ نے اس وقت اس کی وضاحت کیوں نہیں فرمادی ، اصولیین کے یہاں یہ مسلمہ اصول ہے کہ شارع علیہ السلام(نبی اکرمﷺ)کے لیے یہ جائزنہیں تھاکہ کسی بات کو بتانے کی ضرورت ہواورآپ نہ بتائیں۔