جامع الترمذي - حدیث 386

أَبْوَابُ الصَّلاَةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ التَّشْبِيكِ بَيْنَ الأَصَابِعِ فِي الصَّلاَةِ​ صحيح حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ رَجُلٍ عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا تَوَضَّأَ أَحَدُكُمْ فَأَحْسَنَ وُضُوءَهُ ثُمَّ خَرَجَ عَامِدًا إِلَى الْمَسْجِدِ فَلَا يُشَبِّكَنَّ بَيْنَ أَصَابِعِهِ فَإِنَّهُ فِي صَلَاةٍ قَالَ أَبُو عِيسَى حَدِيثُ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ رَوَاهُ غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ مِثْلَ حَدِيثِ اللَّيْثِ وَرَوَى شَرِيكٌ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلَانَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَ هَذَا الْحَدِيثِ وَحَدِيثُ شَرِيكٍ غَيْرُ مَحْفُوظٍ

ترجمہ جامع ترمذی - حدیث 386

کتاب: صلاۃ کے احکام ومسائل صلاۃ میں ایک ہاتھ کی انگلیوں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈالنے کی کراہت کا بیان​ کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :' جب تم میں سے کوئی شخص اچھی طرح سے وضوکرے اور پھر مسجد کے ارادے سے نکلے تو وہ تشبیک نہ کرے (یعنی ایک ہاتھ کی اگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں پیوست نہ کرے) کیونکہ وہ صلاۃ میں ہے'۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ۱- کعب بن عجرہ کی حدیث کو ابن عجلان سے کئی لوگوں نے لیث والی حدیث کی طرح روایت کی ہے،۲- اورشریک نے بطریق : ' مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلاَنَ عَنْ أَبِیہِ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، عَنِ النَّبِیِّ ﷺ' اسی حدیث کی طرح روایت کی ہے اورشریک کی روایت غیرمحفوظ ہے ۱؎ ۔
تشریح : ۱؎ : کیونکہ شریک نے لیث اوردیگرکئی لوگوں کی مخالفت کی ہے، نیز شریک کا حافظہ کمزورہوگیا تھا اور وہ روایت میں بہت غلطیاں کرتے تھے، اس کے برخلاف لیث بن سعد حددرجہ ثقہ ہیں۔ نوٹ:(پہلی سند میں ایک راوی مبہم ہے، نیز اس سند میں سخت اضطراب بھی ہے، اس لیے یہ سند ضعیف ہے، اور دوسری سند میں شریک القاضی ضعیف ہیں، جن کی حدیث کے بارے میں ترمذی کہتے ہیں کہ یہ غیر محفوظ ہے،لیکن اس حدیث کی اصل بسند اسماعیل بن امیہ عن سعید المقبری عن ابی ہریرہ مرفوعا صحیح ہے (سنن الدارمی :۱۴۱۳ ) و صححہ ابن خزیمۃ وقال الحاکم: صحیح علی شرطہما وقال المنذری : وفیما قالہ نظر ) تفصیل کے لیے دیکھئے : الار واء رقم: ۳۷۹) ۱؎ : کیونکہ شریک نے لیث اوردیگرکئی لوگوں کی مخالفت کی ہے، نیز شریک کا حافظہ کمزورہوگیا تھا اور وہ روایت میں بہت غلطیاں کرتے تھے، اس کے برخلاف لیث بن سعد حددرجہ ثقہ ہیں۔ نوٹ:(پہلی سند میں ایک راوی مبہم ہے، نیز اس سند میں سخت اضطراب بھی ہے، اس لیے یہ سند ضعیف ہے، اور دوسری سند میں شریک القاضی ضعیف ہیں، جن کی حدیث کے بارے میں ترمذی کہتے ہیں کہ یہ غیر محفوظ ہے،لیکن اس حدیث کی اصل بسند اسماعیل بن امیہ عن سعید المقبری عن ابی ہریرہ مرفوعا صحیح ہے (سنن الدارمی :۱۴۱۳ ) و صححہ ابن خزیمۃ وقال الحاکم: صحیح علی شرطہما وقال المنذری : وفیما قالہ نظر ) تفصیل کے لیے دیکھئے : الار واء رقم: ۳۷۹)