جامع الترمذي - حدیث 378

أَبْوَابُ الصَّلاَةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ السَّدْلِ فِي الصَّلاَةِ​ حسن حَدَّثَنَا هَنَّادٌ حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ عَنْ عِسْلِ بْنِ سُفْيَانَ عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ السَّدْلِ فِي الصَّلَاةِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ قَالَ أَبُو عِيسَى حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ لَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ عَطَاءٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ مَرْفُوعًا إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عِسْلِ بْنِ سُفْيَانَ وَقَدْ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي السَّدْلِ فِي الصَّلَاةِ فَكَرِهَ بَعْضُهُمْ السَّدْلَ فِي الصَّلَاةِ وَقَالُوا هَكَذَا تَصْنَعُ الْيَهُودُ و قَالَ بَعْضُهُمْ إِنَّمَا كُرِهَ السَّدْلُ فِي الصَّلَاةِ إِذَا لَمْ يَكُنْ عَلَيْهِ إِلَّا ثَوْبٌ وَاحِدٌ فَأَمَّا إِذَا سَدَلَ عَلَى الْقَمِيصِ فَلَا بَأْسَ وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَكَرِهَ ابْنُ الْمُبَارَكِ السَّدْلَ فِي الصَّلَاةِ

ترجمہ جامع ترمذی - حدیث 378

کتاب: صلاۃ کے احکام ومسائل صلاۃ میں سدل کی کراہت کا بیان​ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے صلاۃ میں سدل کرنے سے منع فرمایا ہے ۱؎ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱ - ہم ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کوعطاکی روایت سے جسے انہوں نے ابوہریرہ سے مرفوعاً روایت کی ہے عسل بن سفیان ہی کے طریق سے جانتے ہیں، ۲- اس باب میں ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔ ۳-سدل کے سلسلے میں اہل علم کے درمیان اختلاف ہے: بعض لوگ کہتے ہیں کہ صلاۃ میں سدل کرنا مکروہ ہے، ان کا کہنا ہے کہ اس طرح یہود کرتے ہیں اور بعض کہتے ہیں کہ صلاۃ میں سدل اس وقت مکروہ ہوگا جب جسم پر ایک ہی کپڑا ہو، رہی یہ بات کہ جب کوئی کُرتے کے اوپرسدل کرے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ۲؎ یہی احمد کا قول ہے لیکن ابن المبارک نے صلاۃ میں سدل کو (مطلقاً) مکروہ قرار دیاہے۔
تشریح : ۱؎ : سدل کی صور ت یہ ہے کہ چادریارومال وغیر ہ کو اپنے سر یا دونوں کندھوں پر ڈال کر اس کے دونوں کناروں کو لٹکتا چھوڑ دیا جائے اورسدل کی ایک تفسیریہ بھی کی جاتی ہے کہ کُرتایا جبہ اس طرح پہناجائے کہ دونوں ہاتھ آستین میں ڈالنے کے بجائے اندر ہی رکھے جائیں اوراسی حالت میں رکوع اورسجدہ کیاجائے۔ ۲؎ : اس تقییدپر کوئی دلیل نہیں ہے، حدیث مطلق ہے اس لیے کہ سدل مطلقاًجائزنہیں،کرتے کے اوپرسے سدل میں اگرچہ سترکھلنے کا خطرہ نہیں ہے لیکن اس سے صلاۃ میں خلل تو پڑتاہی ہے ، چاہے سدل کی جوبھی تفسیرکی جائے۔ نوٹ:(عسل بن سفیان بصری ضعیف راوی ہے، اس لیے یہ سند ضعیف ہے، لیکن ابوجحیفہ کے شاہد سے تقویت پاکر یہ حدیث حسن ہے ) ۱؎ : سدل کی صور ت یہ ہے کہ چادریارومال وغیر ہ کو اپنے سر یا دونوں کندھوں پر ڈال کر اس کے دونوں کناروں کو لٹکتا چھوڑ دیا جائے اورسدل کی ایک تفسیریہ بھی کی جاتی ہے کہ کُرتایا جبہ اس طرح پہناجائے کہ دونوں ہاتھ آستین میں ڈالنے کے بجائے اندر ہی رکھے جائیں اوراسی حالت میں رکوع اورسجدہ کیاجائے۔ ۲؎ : اس تقییدپر کوئی دلیل نہیں ہے، حدیث مطلق ہے اس لیے کہ سدل مطلقاًجائزنہیں،کرتے کے اوپرسے سدل میں اگرچہ سترکھلنے کا خطرہ نہیں ہے لیکن اس سے صلاۃ میں خلل تو پڑتاہی ہے ، چاہے سدل کی جوبھی تفسیرکی جائے۔ نوٹ:(عسل بن سفیان بصری ضعیف راوی ہے، اس لیے یہ سند ضعیف ہے، لیکن ابوجحیفہ کے شاہد سے تقویت پاکر یہ حدیث حسن ہے )