أَبْوَابُ الصَّلاَةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ أَنَّ صَلاَةَ الْقَاعِدِ عَلَى النِّصْفِ مِنْ صَلاَةِ الْقَائِمِ صحيح وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ طَهْمَانَ بِهَذَا الإِسْنَادِ، إِلاَّ أَنَّهُ يَقُولُ: عَنْ عِمْرَانَ ابْنِ حُصَيْنٍ قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ عَنْ صَلاَةِ الْمَرِيضِ؟ فَقَالَ:"صَلِّ قَائِمًا، فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَقَاعِدًا، فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَعَلَى جَنْبٍ". حَدَّثَنَا بِذَلِكَ هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ طَهْمَانَ، عَنْ حُسَيْنٍ الْمُعَلِّمِ بِهَذَا الْحَدِيثِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَلاَ نَعْلَمُ أَحَدًا رَوَى عَنْ حُسَيْنٍ الْمُعَلِّمِ نَحْوَ رِوَايَةِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ طَهْمَانَ. وَقَدْ رَوَى أَبُو أُسَامَةَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ حُسَيْنٍ الْمُعَلِّمِ نَحْوَ رِوَايَةِ عِيسَى بْنِ يُونُسَ. وَمَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ: فِي صَلاَةِ التَّطَوُّعِحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ أَشْعَثَ بْنِ عَبْدِالْمَلِكِ، عَنْ الْحَسَنِ قَالَ: إِنْ شَاءَ الرَّجُلُ صَلَّى صَلاَةَ التَّطَوُّعِ قَائِمًا وَجَالِسًا وَمُضْطَجِعًا. وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي صَلاَةِ الْمَرِيضِ إِذَا لَمْ يَسْتَطِعْ أَنْ يُصَلِّيَ جَالِسًا. فَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: يُصَلِّي عَلَى جَنْبِهِ الأَيْمَنِ. و قَالَ بَعْضُهُمْ: يُصَلِّي مُسْتَلْقِيًا عَلَى قَفَاهُ، وَرِجْلاَهُ إِلَى الْقِبْلَةِ. قَالَ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ فِي هَذَا الْحَدِيثِ:"مَنْ صَلَّى جَالِسًا فَلَهُ نِصْفُ أَجْرِ الْقَائِمِ"، قَالَ: هَذَا لِلصَّحِيحِ وَلِمَنْ لَيْسَ لَهُ عُذْرٌ، يَعْنِي فِي النَّوَافِلِ، فَأَمَّا مَنْ كَانَ لَهُ عُذْرٌ مِنْ مَرَضٍ أَوْ غَيْرِهِ فَصَلَّى جَالِسًا: فَلَهُ مِثْلُ أَجْرِ الْقَائِمِ. وَقَدْ رُوِيَ فِي بَعْضِ هَذَا الْحَدِيثِ مِثْلُ قَوْلِ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ
کتاب: صلاۃ کے احکام ومسائل بیٹھ کر صلاۃ پڑھنے کا ثواب کھڑے ہوکر پڑھنے سے آدھا ہے یہ حدیث ابراہیم بن طہمان کے طریق سے بھی اسی سند سے مروی ہے، مگر اس میں یوں ہے: عمران بن حصین کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے مریض کی صلاۃ کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا :' کھڑے ہوکر پڑھو، اگر اس کی طاقت نہ ہوتو بیٹھ کرپڑھو اور اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو لیٹ کر پہلو کے بل پڑھو'۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ۱- اہل علم کے نزدیک اس حدیث میں جس صلاۃ کا ذکر ہے اس سے مراد نفلی صلاۃ ہے۔ ۲-ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ ہم سے ابن عدی نے بیان کیا ، اورابن عدی نے اشعث بن عبدالملک سے اوراشعث نے حسن سے روایت کی ،وہ کہتے ہیں کہ نفل صلاۃ اگرچاہے توآدمی کھڑے ہوکر پڑھے اور چاہے تو بیٹھ کر پڑھے اور چاہے تو لیٹ کر، ۳- اورمریض کی صلاۃ کے سلسلہ میں جب وہ بیٹھ کرصلاۃ نہ پڑھ سکے اہل علم نے اختلاف کیاہے:بعض اہل علم یہ کہتے ہیں کہ وہ اپنے داہنے پہلوپر لیٹ کر پڑھے، اور بعض کہتے ہیں اپنی گدی کے بل چت لیٹ کر پڑھے اوراس کے دونوں پاؤں قبلہ کی طرف ہوں،۴- سفیان ثوری کہتے ہیں کہ اس حدیث میں جو یہ ہے کہ جو بیٹھ کر صلاۃپڑھے گا اُسے کھڑے ہوکرپڑھنے والے کے آدھاثواب ملے گا تویہ (نوافل) میں تندرست کے لیے ہے اوراس شخص کے لیے ہے جسے کوئی عذر(شرعی)نہ ہو،رہاوہ شخص جس کے پاس بیماری یاکسی اور چیز کا عذر ہو اور وہ بیٹھ کر (فرض) صلاۃ پڑھے تو اسے کھڑے ہوکر پڑھنے والے کی طرح پورا پورا ثواب ملے گا۔ اس حدیث کے بعض طرق میں سفیان ثوری کے قول کی طرح کامضمون (مرفوعاًبھی) مروی ہے۔