أَبْوَابُ الصَّلاَةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ فِي الإِشَارَةِ فِي الصَّلاَةِ صحيح حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَشَجِّ عَنْ نَابِلٍ صَاحِبِ الْعَبَاءِ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ صُهَيْبٍ قَالَ مَرَرْتُ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُصَلِّي فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَدَّ إِلَيَّ إِشَارَةً وَقَالَ لَا أَعْلَمُ إِلَّا أَنَّهُ قَالَ إِشَارَةً بِإِصْبَعِهِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ بِلَالٍ وَأَبِي هُرَيْرَةَ وَأَنَسٍ وَعَائِشَةَ
کتاب: صلاۃ کے احکام ومسائل
صلاۃ میں اشارہ کرنے کا بیان
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ صہیب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میں رسول اللہﷺ کے پاس سے گزرااور آپ صلاۃ پڑھ رہے تھے ،میں نے سلام کیا تو آپ نے مجھے اشارے سے جواب دیا، راوی (ابن عمر)کہتے ہیں کہ میرایہی خیال ہے کہ صہیب نے کہا : آپ نے اپنی انگلی کے اشارے سے جواب دیا ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: صہیب کی حدیث حسن ہے ۲؎ ،۲- اس باب میں بلال ، ابوہریرہ، انس، ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تشریح :
۱؎ : یہ حدیث اس بات پردلالت کرتی ہے کہ صلاۃمیں سلام کاجواب اشارہ سے دینا مشروع ہے، یہی جمہورکی رائے ہے، بعض لوگ اسے ممنوع کہتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ پہلے جائزتھا بعد میں منسوخ ہوگیا، لیکن یہ صحیح نہیں،بلکہ صحیح یہ ہے کہ پہلے صلاۃ میں کلام کرنا جائزتھا تو لوگ سلام کا جواب بھی 'وعلیکم السلام' کہہ کردیتے تھے، پھرجب صلاۃ میں کلام کرنا ناجائزقراردے دیا گیا تو ' وعلیکم السلام' کہہ کرسلام کا جواب دینا بھی ناجائزہوگیا اوراس کے بدلے اشارے سے سلام کاجواب دینا مشروع ہوا، اس اشارے کی نوعیت کے سلسلہ میں احادیث مختلف ہیں، بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اپنی انگلی سے اشارہ کیا اوربعض سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے ہاتھ سے اشارہ کیا اس طرح کہ ہاتھ کی پشت اوپرتھی اور ہتھیلی نیچے تھی، اور بعض احادیث میں ہے کہ آپﷺ نے سر سے اشارہ کیا ان سب سے معلوم ہوا کہ یہ تینوں صورتیں جائز ہیں۔
۲؎ : اگلی حدیث نمبر۳۶۸کے تحت مولف نے اس حدیث پر حکم لگایا ہے ۔
۱؎ : یہ حدیث اس بات پردلالت کرتی ہے کہ صلاۃمیں سلام کاجواب اشارہ سے دینا مشروع ہے، یہی جمہورکی رائے ہے، بعض لوگ اسے ممنوع کہتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ پہلے جائزتھا بعد میں منسوخ ہوگیا، لیکن یہ صحیح نہیں،بلکہ صحیح یہ ہے کہ پہلے صلاۃ میں کلام کرنا جائزتھا تو لوگ سلام کا جواب بھی 'وعلیکم السلام' کہہ کردیتے تھے، پھرجب صلاۃ میں کلام کرنا ناجائزقراردے دیا گیا تو ' وعلیکم السلام' کہہ کرسلام کا جواب دینا بھی ناجائزہوگیا اوراس کے بدلے اشارے سے سلام کاجواب دینا مشروع ہوا، اس اشارے کی نوعیت کے سلسلہ میں احادیث مختلف ہیں، بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اپنی انگلی سے اشارہ کیا اوربعض سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے ہاتھ سے اشارہ کیا اس طرح کہ ہاتھ کی پشت اوپرتھی اور ہتھیلی نیچے تھی، اور بعض احادیث میں ہے کہ آپﷺ نے سر سے اشارہ کیا ان سب سے معلوم ہوا کہ یہ تینوں صورتیں جائز ہیں۔
۲؎ : اگلی حدیث نمبر۳۶۸کے تحت مولف نے اس حدیث پر حکم لگایا ہے ۔