جامع الترمذي - حدیث 3620

أَبْوَابُ الْمَنَاقِبِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ فِي بَدْءِ نُبُوَّةِ النَّبِيِّ ﷺ​ صحيح حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ سَهْلٍ أَبُو الْعَبَّاسِ الْأَعْرَجُ الْبَغْدَادِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ غَزْوَانَ أَبُو نُوحٍ أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي مُوسَى عَنْ أَبِيهِ قَالَ خَرَجَ أَبُو طَالِبٍ إِلَى الشَّامِ وَخَرَجَ مَعَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أَشْيَاخٍ مِنْ قُرَيْشٍ فَلَمَّا أَشْرَفُوا عَلَى الرَّاهِبِ هَبَطُوا فَحَلُّوا رِحَالَهُمْ فَخَرَجَ إِلَيْهِمْ الرَّاهِبُ وَكَانُوا قَبْلَ ذَلِكَ يَمُرُّونَ بِهِ فَلَا يَخْرُجُ إِلَيْهِمْ وَلَا يَلْتَفِتُ قَالَ فَهُمْ يَحُلُّونَ رِحَالَهُمْ فَجَعَلَ يَتَخَلَّلُهُمْ الرَّاهِبُ حَتَّى جَاءَ فَأَخَذَ بِيَدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ هَذَا سَيِّدُ الْعَالَمِينَ هَذَا رَسُولُ رَبِّ الْعَالَمِينَ يَبْعَثُهُ اللَّهُ رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ فَقَالَ لَهُ أَشْيَاخٌ مِنْ قُرَيْشٍ مَا عِلْمُكَ فَقَالَ إِنَّكُمْ حِينَ أَشْرَفْتُمْ مِنْ الْعَقَبَةِ لَمْ يَبْقَ شَجَرٌ وَلَا حَجَرٌ إِلَّا خَرَّ سَاجِدًا وَلَا يَسْجُدَانِ إِلَّا لِنَبِيٍّ وَإِنِّي أَعْرِفُهُ بِخَاتَمِ النُّبُوَّةِ أَسْفَلَ مِنْ غُضْرُوفِ كَتِفِهِ مِثْلَ التُّفَّاحَةِ ثُمَّ رَجَعَ فَصَنَعَ لَهُمْ طَعَامًا فَلَمَّا أَتَاهُمْ بِهِ وَكَانَ هُوَ فِي رِعْيَةِ الْإِبِلِ قَالَ أَرْسِلُوا إِلَيْهِ فَأَقْبَلَ وَعَلَيْهِ غَمَامَةٌ تُظِلُّهُ فَلَمَّا دَنَا مِنْ الْقَوْمِ وَجَدَهُمْ قَدْ سَبَقُوهُ إِلَى فَيْءِ الشَّجَرَةِ فَلَمَّا جَلَسَ مَالَ فَيْءُ الشَّجَرَةِ عَلَيْهِ فَقَالَ انْظُرُوا إِلَى فَيْءِ الشَّجَرَةِ مَالَ عَلَيْهِ قَالَ فَبَيْنَمَا هُوَ قَائِمٌ عَلَيْهِمْ وَهُوَ يُنَاشِدُهُمْ أَنْ لَا يَذْهَبُوا بِهِ إِلَى الرُّومِ فَإِنَّ الرُّومَ إِذَا رَأَوْهُ عَرَفُوهُ بِالصِّفَةِ فَيَقْتُلُونَهُ فَالْتَفَتَ فَإِذَا بِسَبْعَةٍ قَدْ أَقْبَلُوا مِنْ الرُّومِ فَاسْتَقْبَلَهُمْ فَقَالَ مَا جَاءَ بِكُمْ قَالُوا جِئْنَا إِنَّ هَذَا النَّبِيَّ خَارِجٌ فِي هَذَا الشَّهْرِ فَلَمْ يَبْقَ طَرِيقٌ إِلَّا بُعِثَ إِلَيْهِ بِأُنَاسٍ وَإِنَّا قَدْ أُخْبِرْنَا خَبَرَهُ بُعِثْنَا إِلَى طَرِيقِكَ هَذَا فَقَالَ هَلْ خَلْفَكُمْ أَحَدٌ هُوَ خَيْرٌ مِنْكُمْ قَالُوا إِنَّمَا أُخْبِرْنَا خَبَرَهُ بِطَرِيقِكَ هَذَا قَالَ أَفَرَأَيْتُمْ أَمْرًا أَرَادَ اللَّهُ أَنْ يَقْضِيَهُ هَلْ يَسْتَطِيعُ أَحَدٌ مِنْ النَّاسِ رَدَّهُ قَالُوا لَا قَالَ فَبَايَعُوهُ وَأَقَامُوا مَعَهُ قَالَ أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ أَيُّكُمْ وَلِيُّهُ قَالُوا أَبُو طَالِبٍ فَلَمْ يَزَلْ يُنَاشِدُهُ حَتَّى رَدَّهُ أَبُو طَالِبٍ وَبَعَثَ مَعَهُ أَبُو بَكْرٍ بِلَالًا وَزَوَّدَهُ الرَّاهِبُ مِنْ الْكَعْكِ وَالزَّيْتِ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ

ترجمہ جامع ترمذی - حدیث 3620

کتاب: فضائل و مناقب کے بیان میں نبی اکرم ﷺ کی نبوت کی ابتداء بیان​ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ابوطالب شام کی طرف (تجارت کی غرض سے) نکلے، نبی اکرم ﷺبھی قریش کے بوڑھوں میں ان کے ساتھ نکلے،جب یہ لوگ بحیرہ راہب کے پاس پہنچے تو وہیں پڑاؤ ڈال دیا اور اپنی سواریوں کے کجاوے کھول دیے ،تو راہب اپنے گرجا گھر سے نکل کر ان کے پاس آیا حالاں کہ اس سے پہلے یہ لوگ اس کے پاس سے گزرتے تھے، لیکن وہ کبھی ان کی طرف متوجہ نہیں ہوتاتھا، اور نہ ان کے پاس آتاتھا، کہتے ہیں :تو یہ لوگ اپنی سواریاں ابھی کھول ہی رہے تھے کہ راہب نے ان کے بیچ سے گھستے ہوئے آکر رسول اللہ ﷺ کا ہاتھ پکڑ لیا اور بولا : یہ سارے جہان کے سردار ہیں، یہ سارے جہان کے سردار ہیں، یہ سارے جہان کے رب کے رسول ہیں، اللہ انہیں سارے جہان کے لیے رحمت بناکر بھیجے گا، تواس سے قریش کے بوڑھوں نے پوچھا: تمہیں یہ کیسے معلوم ہوا؟ تو اس نے کہا: جب تم لوگ اس ٹیلے سے اترے تو کوئی درخت اور پتھر ایسا نہیں رہا جوسجدہ میں نہ گر پڑا ہو، اور یہ دونوں صرف نبی ہی کو سجدہ کیا کرتے ہیں، اور میں انہیں مہر نبوت سے پہچانتاہوں جو شانہ کی ہڈی کے سرے کے نیچے سیب کے مانند ہے، پھر وہ واپس گیا اور ان کے لیے کھانا تیار کیا ،جب وہ کھانا لے کر ان کے پاس آیا تو آپﷺ اونٹ چرانے گئے تھے تو اس نے کہا: کسی کو بھیج دوکہ ان کو بلا کر لائے، چنانچہ آپ آئے اور ایک بدلی آپ پر سایہ کئے ہوئے تھی، جب آپ لوگوں کے قریب ہوئے تو انہیں درخت کے سایہ میں پہلے ہی سے بیٹھے پایا، پھر جب آپ بیٹھ گئے تو درخت کا سایہ آپ پر جھک گیا اس پر راہب بول اٹھا: دیکھو! درخت کا سایہ آپ پرجھک گیا ہے، پھر راہب ان کے سامنے کھڑا رہا اور ان سے قسم دے کر کہہ رہاتھا کہ انہیں روم نہ لے جاؤ اس لیے کہ روم کے لوگ دیکھتے ہی انہیں ان کے اوصاف سے پہچان لیں گے اور انہیں قتل کرڈالیں گے، پھر وہ مڑا تو دیکھا کہ سات آدمی ہیں جو روم سے آئے ہوئے ہیں تو اس نے بڑھ کر ان سب کا استقبال کیا اور پوچھا آپ لوگ کیوں آئے ہیں؟ ان لوگوں نے کہا: ہم اس نبی کے لیے آئے ہیں جو اس مہینہ میں آنے والا ہے، اور کوئی راستہ ایسا باقی نہیں بچاہے جس کی طرف کچھ نہ کچھ لوگ نہ بھیجے گئے ہوں، اور جب ہمیں تمہارے اس راستہ پر اس کی خبر لگی تو ہم تمہاری اس راہ پر بھیجے گئے ،تو اس نے پوچھا: کیا تمہارے پیچھے کوئی اورہے جو تم سے بہتر ہو؟ ان لوگوں نے کہا: ہمیں تو تمہارے اس راستہ پر اس کی خبر لگی تو ہم اس پر ہولیے اس نے کہا: اچھا یہ بتاؤ کہ اللہ جس امر کا فیصلہ فرمالے کیا لوگوں میں سے اسے کوئی ٹال سکتاہے؟ ان لوگوں نے کہا: نہیں ، اس نے کہا: پھر تم اس سے بیعت کرو، اور اس کے ساتھ رہو، پھر وہ عربوں کی طرف متوجہ ہوکر بولا: میں تم سے اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ تم میں سے اس کا ولی کون ہے؟ لوگوں نے کہا: ابوطالب ، تو وہ انہیں برابر قسم دلاتا رہا یہاں تک کہ ابوطالب نے انہیں واپس مکہ لوٹادیا اور ابوبکر نے آپ کے ساتھ بلال کو بھی بھیج دیا اور راہب نے آپ کو کیک اور زیتون کا توشہ دیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔