أَبْوَابُ الصَّلاَةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ إِذَا حَضَرَ الْعَشَاءُ وَأُقِيمَتِ الصَّلاَةُ فَابْدَئُوا بِالْعَشَاءِ صحيح حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ أَنَسٍ يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا حَضَرَ الْعَشَاءُ وَأُقِيمَتْ الصَّلَاةُ فَابْدَءُوا بِالْعَشَاءِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ وَابْنِ عُمَرَ وَسَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ وَأُمِّ سَلَمَةَ قَالَ أَبُو عِيسَى حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَعَلَيْهِ الْعَمَلُ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهُمْ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَابْنُ عُمَرَ وَبِهِ يَقُولُ أَحْمَدُ وَإِسْحَقُ يَقُولَانِ يَبْدَأُ بِالْعَشَاءِ وَإِنْ فَاتَتْهُ الصَّلَاةُ فِي الْجَمَاعَةِ قَالَ أَبُو عِيسَى سَمِعْت الْجَارُودَ يَقُولُ سَمِعْتُ وَكِيعًا يَقُولُ فِي هَذَا الْحَدِيثِ يَبْدَأُ بِالْعَشَاءِ إِذَا كَانَ طَعَامًا يَخَافُ فَسَادَهُ وَالَّذِي ذَهَبَ إِلَيْهِ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ أَشْبَهُ بِالِاتِّبَاعِ وَإِنَّمَا أَرَادُوا أَنْ لَا يَقُومَ الرَّجُلُ إِلَى الصَّلَاةِ وَقَلْبُهُ مَشْغُولٌ بِسَبَبِ شَيْءٍ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ قَالَ لَا نَقُومُ إِلَى الصَّلَاةِ وَفِي أَنْفُسِنَا شَيْءٌ
کتاب: صلاۃ کے احکام ومسائل
شام کا کھانا حاضر ہو اور صلاۃ کھڑی ہوجائے تو پہلے کھانا کھالو
انس رضی اللہ عنہ سے کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا: 'جب شام کاکھانا حاضر ہو ، اورصلاۃ کھڑی کردی جائے ۱؎ تو پہلے کھا لو'۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- انس رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں عائشہ، ابن عمر، سلمہ بن اکوع، اور ام سلمہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- صحابہ کرام میں سے اہل علم کااسی پرعمل ہے۔ انہیں میں سے ابوبکر ، عمر اور ابن عمر رضی اللہ عنہم بھی ہیں، اوریہی احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں کہ پہلے کھاناکھائے اگرچہ جماعت چھوٹجائے۔ ۴- اس حدیث کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ پہلے کھانا کھائے گا جب اسے کھانا خراب ہونے کا اندیشہ ہو،لیکن جس کی طرف صحابہ کرام وغیرہ میں سے بعض اہل علم گئے ہیں، وہ اتباع کے زیادہ لائق ہے، ان لوگوں کا مقصود یہ ہے کہ آدمی ایسی حالت میں صلاۃ میں نہ کھڑا ہوکہ اس کادل کسی چیزکے سبب مشغول ہو،اور ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ہم صلاۃ کے لیے کھڑے نہیں ہوتے جب تک ہمارا دل کسی اور چیز میں لگاہوتا ہے۔
تشریح :
۱؎ : بعض لوگوں نے صلاۃسے مغرب کی صلاۃمرادلی ہے او اس میں واردحکم کوصائم کے لیے خاص ماناہے، لیکن مناسب یہی ہے کہ اس حکم کی علّت کے پیش نظراسے عموم پرمحمول کیاجائے،خواہ دوپہرکا کھاناہو یا شام کا۔
۱؎ : بعض لوگوں نے صلاۃسے مغرب کی صلاۃمرادلی ہے او اس میں واردحکم کوصائم کے لیے خاص ماناہے، لیکن مناسب یہی ہے کہ اس حکم کی علّت کے پیش نظراسے عموم پرمحمول کیاجائے،خواہ دوپہرکا کھاناہو یا شام کا۔