جامع الترمذي - حدیث 3471

أَبْوَابُ الدَّعَوَاتِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَابٌ فِی ثَوَابِ التَّسبِیحِ وَالتَّحمِیدِ وَالتَّھلِیلِ وَالتَّکبِیرِ منکر حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ وَزِيرٍ الْوَاسِطِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو سُفْيَانَ الْحِمْيَرِيُّ عَنْ الضَّحَّاكِ بْنِ حُمْرَةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ سَبَّحَ اللَّهَ مِائَةً بِالْغَدَاةِ وَمِائَةً بِالْعَشِيِّ كَانَ كَمَنْ حَجَّ مِائَةَ مَرَّةٍ وَمَنْ حَمِدَ اللَّهَ مِائَةً بِالْغَدَاةِ وَمِائَةً بِالْعَشِيِّ كَانَ كَمَنْ حَمَلَ عَلَى مِائَةِ فَرَسٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَوْ قَالَ غَزَا مِائَةَ غَزْوَةٍ وَمَنْ هَلَّلَ اللَّهَ مِائَةً بِالْغَدَاةِ وَمِائَةً بِالْعَشِيِّ كَانَ كَمَنْ أَعْتَقَ مِائَةَ رَقَبَةٍ مِنْ وَلَدِ إِسْمَعِيلَ وَمَنْ كَبَّرَ اللَّهَ مِائَةً بِالْغَدَاةِ وَمِائَةً بِالْعَشِيِّ لَمْ يَأْتِ فِي ذَلِكَ الْيَوْمِ أَحَدٌ بِأَكْثَرَ مِمَّا أَتَى بِهِ إِلَّا مَنْ قَالَ مِثْلَ مَا قَالَ أَوْ زَادَ عَلَى مَا قَالَ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

ترجمہ جامع الترمذي - حدیث 3471

كتاب: مسنون ادعیہ واذکار کے بیان میں باب: تسبیح ‘تحمید‘تہلیل اور تکبیرات کا ثواب عبداللہ بن عمرو ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے سو بار صبح اور سو بار شام تسبیح پڑھی (یعنی سُبْحَانَ اللهِ کہا) تو وہ سو حج کیے ہوئے شخص کی طرح ہو جاتا ہے۔ اور جس نے سو بار صبح اور سو بار شام میں اللہ کی حمد بیان کی (یعنی اَلْحَمْدُ لِلّہ کہا) اس نے گویا کہ فی سبیل اللہ غازیوں کی سواریوں کے لیے سوگھوڑے فراہم کئے (راوی کو شک ہو گیا یہ کہا یا یہ کہا) گویا کہ اس نے سو جہاد کئے، اور جس نے سو بار صبح اور سو بار شام کو اللہ کی تہلیل بیان کی (یعنی لَاإلٰہَ اِلَّا اللہ) کہا تو وہ ایسا ہو جائے گا گویا کہ اس نے اولاد اسماعیل میں سے سو غلام آزاد کئے اور جس نے سو بار صبح اور سو بار شام کو اللہ اکبر کہا تو قیامت کے دن کوئی شخص اس سے زیادہ نیک عمل لے کر حاضر نہ ہو گا، سوائے اس کے جس نے ا س سے زیادہ کہا ہو گا یا اس کے برابر کہا ہو گا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔
تشریح : وضاحت:نوٹ: (سند میں ضحاک بن حمرہ سخت ضعیف ہے، اور یہ حدیث اصول اسلام کے خلاف ہے کہ اس میں معمولی نیکیوں پر حد سے زیادہ اجر وثواب ملنے کا تذکرہ ہے)۔ وضاحت:نوٹ: (سند میں ضحاک بن حمرہ سخت ضعیف ہے، اور یہ حدیث اصول اسلام کے خلاف ہے کہ اس میں معمولی نیکیوں پر حد سے زیادہ اجر وثواب ملنے کا تذکرہ ہے)۔