جامع الترمذي - حدیث 345

أَبْوَابُ الصَّلاَةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ يُصَلِّي لِغَيْرِ الْقِبْلَةِ فِي الْغَيْمِ​ حسن حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا أَشْعَثُ بْنُ سَعِيدٍ السَّمَّانُ عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ فِي لَيْلَةٍ مُظْلِمَةٍ فَلَمْ نَدْرِ أَيْنَ الْقِبْلَةُ فَصَلَّى كُلُّ رَجُلٍ مِنَّا عَلَى حِيَالِهِ فَلَمَّا أَصْبَحْنَا ذَكَرْنَا ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَزَلَ فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ لَيْسَ إِسْنَادُهُ بِذَاكَ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ أَشْعَثَ السَّمَّانِ وَأَشْعَثُ بْنُ سَعِيدٍ أَبُو الرَّبِيعِ السَّمَّانُ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ وَقَدْ ذَهَبَ أَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِلَى هَذَا قَالُوا إِذَا صَلَّى فِي الْغَيْمِ لِغَيْرِ الْقِبْلَةِ ثُمَّ اسْتَبَانَ لَهُ بَعْدَمَا صَلَّى أَنَّهُ صَلَّى لِغَيْرِ الْقِبْلَةِ فَإِنَّ صَلَاتَهُ جَائِزَةٌ وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَابْنُ الْمُبَارَكِ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ

ترجمہ جامع ترمذی - حدیث 345

کتاب: صلاۃ کے احکام ومسائل جوشخص بدلی میں غیر قبلہ کی طرف منہ کرکے صلاۃ پڑھ لے اس کا کیا حکم ہے؟​ عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم ایک تاریک رات میں رسول اللہﷺ کے ساتھ سفرمیں تھے۔ توہم نہیں جان سکے کہ قبلہ کس طرف ہے، ہم میں سے ہرشخص نے اسی طرف رخ کرکے صلاۃ پڑھ لی جس طرف پہلے سے اس کا رخ تھا۔ جب ہم نے صبح کی اور نبی اکرمﷺ سے اس کا ذکرکیا چنانچہ اس وقت آیت کریمہ{فَأَیْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْہُ اللَّہِ } (تم جس طرف رخ کرلو اللہ کا منہ اسی طرف ہے) نازل ہوئی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس حدیث کی سند کچھ زیادہ اچھی نہیں ہے۔ ہم اسے صرف اشعث بن سمان ہی کی روایت سے جانتے ہیں، اور اشعث بن سعید ابوالربیع سمان حدیث کے معاملے میں ضعیف گردانے جاتے ہیں، ۲- اکثر اہل علم اسی کی طرف گئے ہیں کہ جب کوئی بدلی میں غیر قبلہ کی طرف صلاۃ پڑھ لے پھر صلاۃ پڑھ لینے کے بعدپتہ چلے اس نے غیر قبلہ کی طرف رخ کرکے صلاۃ پڑھی ہے تو اس کی صلاۃ درست ہے۔سفیان ثوری ، ابن مبارک، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں۔
تشریح : نوٹ:(سند میں اشعث بن سعید السمان متکلم فیہ راوی ہیں، حتی کہ بعض علماء نے بڑی شدیدجرح کی ہے ، اور انہیں غیر ثقہ اور منکر الحدیث بلکہ مترو ک الحدیث قرار دیا ہے، لیکن امام بخاری کہتے ہیں کہ یہ نہ تو متروک ہے اور نہ محدثین کے یہاں حافظ حدیث ہے، ابواحمد الحاکم کہتے ہیں: ليس بالقوي عندهم یعنی محدثین کے یہاں اشعث زیادہ قوی راوی نہیں ہے ، ابن عدی کہتے ہیں: اس کی احادیث میں سے بعض غیر محفوظ ہیں، اور ضعف کے باوجود ان کی حدیثیں لکھی جائیں گی (تہذیب الکمال ۵۲۳) خلاصہ یہ کہ ان کی احادیث کو شواہد ومتابعات کے باب میں جانچا اور پرکھا جائے گا اسی کو اعتبار کہتے ہیں، اور ترمذی نے سند پر کلام کرکے اشعث کے بارے لکھا ہے کہ حدیث میں ان کی تضعیف کی گئی ہے ، اور اکثر علماء کا فتویٰ بھی اسی حدیث کے مطابق ہے ، اس شواہد کی بناپر یہ حدیث حسن ہے)۔ نوٹ:(سند میں اشعث بن سعید السمان متکلم فیہ راوی ہیں، حتی کہ بعض علماء نے بڑی شدیدجرح کی ہے ، اور انہیں غیر ثقہ اور منکر الحدیث بلکہ مترو ک الحدیث قرار دیا ہے، لیکن امام بخاری کہتے ہیں کہ یہ نہ تو متروک ہے اور نہ محدثین کے یہاں حافظ حدیث ہے، ابواحمد الحاکم کہتے ہیں: ليس بالقوي عندهم یعنی محدثین کے یہاں اشعث زیادہ قوی راوی نہیں ہے ، ابن عدی کہتے ہیں: اس کی احادیث میں سے بعض غیر محفوظ ہیں، اور ضعف کے باوجود ان کی حدیثیں لکھی جائیں گی (تہذیب الکمال ۵۲۳) خلاصہ یہ کہ ان کی احادیث کو شواہد ومتابعات کے باب میں جانچا اور پرکھا جائے گا اسی کو اعتبار کہتے ہیں، اور ترمذی نے سند پر کلام کرکے اشعث کے بارے لکھا ہے کہ حدیث میں ان کی تضعیف کی گئی ہے ، اور اکثر علماء کا فتویٰ بھی اسی حدیث کے مطابق ہے ، اس شواہد کی بناپر یہ حدیث حسن ہے)۔