جامع الترمذي - حدیث 3406

أَبْوَابُ الدَّعَوَاتِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَابٌ مِنهُ فِی قِرَاءَۃِ سُورَةُ الکَافِرُونَ وَالسَّجدَةِ وَالمُلکِ وَالزُّمرِ وَبَنِی اِسرَائِیلَ وَالمُسبحات حسن حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا بَقِيَّةُ بْنُ الْوَلِيدِ عَنْ بَحِيرِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بِلَالٍ عَنْ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ لَا يَنَامُ حَتَّى يَقْرَأَ الْمُسَبِّحَاتِ وَيَقُولُ فِيهَا آيَةٌ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ آيَةٍ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

ترجمہ جامع الترمذي - حدیث 3406

كتاب: مسنون ادعیہ واذکار کے بیان میں باب: سورہ کافرون‘سجدہ‘ملک زمر‘بنی اسرائیل اور مسبحات کا پڑھنا عرباض بن ساریہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب تک (مُسَبِّحَاتِ)۱؎ پڑھ نہ لیتے سوتے نہ تھے۲؎، آپﷺ فرماتے تھے : ان میں ایک ایسی آیت ہے جو ہزار آیتوں سے بہتر ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔
تشریح : وضاحت:۱؎: وہ سورتیں جن کے شروع میں (سَبَّحَ یُسَبِّحُ)یا(سُبحَانَ اللہ) ہے۔۲؎: سونے کے وقت پڑھی جانے والی سورتوں اور دعاؤں کے بارے میں آپﷺسے متعدد روایات واردہ یں جن میں بعض کا مؤلف نے بھی ذکرکیا ہے، نبی اکرمﷺ سے بالکل ممکن ہے کہ وہ ساری دعائیں اورسورتیں پڑھ لیتے ہوں، یا نشاط اور چستی کے مطابق کبھی کوئی پڑھ لیتے ہوں اور کبھی کوئی۔ نوٹ: (سند میں بقیۃ بن الولید مدلس راوی ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے، نیز عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بِلَالٍ الخزاعي الشِّاميِ مَقْبول عِنْدَالمتابعة) ہیں، اور ان کا کوئی متابع نہیں اس لیے ضعیف ہیں، البانی صاحب نے صحیح الترمذی میں پہلی جگہ ضعیف الإسناد لکھا ہے، اور دوسری جگہ حسن جب کہ ضعیف الترغیب (۳۴۴) میں اسے ضعیف کہا ہے)- وضاحت:۱؎: وہ سورتیں جن کے شروع میں (سَبَّحَ یُسَبِّحُ)یا(سُبحَانَ اللہ) ہے۔۲؎: سونے کے وقت پڑھی جانے والی سورتوں اور دعاؤں کے بارے میں آپﷺسے متعدد روایات واردہ یں جن میں بعض کا مؤلف نے بھی ذکرکیا ہے، نبی اکرمﷺ سے بالکل ممکن ہے کہ وہ ساری دعائیں اورسورتیں پڑھ لیتے ہوں، یا نشاط اور چستی کے مطابق کبھی کوئی پڑھ لیتے ہوں اور کبھی کوئی۔ نوٹ: (سند میں بقیۃ بن الولید مدلس راوی ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے، نیز عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بِلَالٍ الخزاعي الشِّاميِ مَقْبول عِنْدَالمتابعة) ہیں، اور ان کا کوئی متابع نہیں اس لیے ضعیف ہیں، البانی صاحب نے صحیح الترمذی میں پہلی جگہ ضعیف الإسناد لکھا ہے، اور دوسری جگہ حسن جب کہ ضعیف الترغیب (۳۴۴) میں اسے ضعیف کہا ہے)-