أَبْوَابُ تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب وَمِنْ سُورَةِ الْحَاقَّةِ ضعيف حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَعْدٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي قَيْسٍ عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَيْرَةَ عَنْ الْأَحْنَفِ بْنِ قَيْسٍ عَنْ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ زَعَمَ أَنَّهُ كَانَ جَالِسًا فِي الْبَطْحَاءِ فِي عِصَابَةٍ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ فِيهِمْ إِذْ مَرَّتْ عَلَيْهِمْ سَحَابَةٌ فَنَظَرُوا إِلَيْهَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَلْ تَدْرُونَ مَا اسْمُ هَذِهِ قَالُوا نَعَمْ هَذَا السَّحَابُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْمُزْنُ قَالُوا وَالْمُزْنُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْعَنَانُ قَالُوا وَالْعَنَانُ ثُمَّ قَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَلْ تَدْرُونَ كَمْ بُعْدُ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ فَقَالُوا لَا وَاللَّهِ مَا نَدْرِي قَالَ فَإِنَّ بُعْدَ مَا بَيْنَهُمَا إِمَّا وَاحِدَةٌ وَإِمَّا اثْنَتَانِ أَوْ ثَلَاثٌ وَسَبْعُونَ سَنَةً وَالسَّمَاءُ الَّتِي فَوْقَهَا كَذَلِكَ حَتَّى عَدَّدَهُنَّ سَبْعَ سَمَوَاتٍ كَذَلِكَ ثُمَّ قَالَ فَوْقَ السَّمَاءِ السَّابِعَةِ بَحْرٌ بَيْنَ أَعْلَاهُ وَأَسْفَلِهِ كَمَا بَيْنَ السَّمَاءِ إِلَى السَّمَاءِ وَفَوْقَ ذَلِكَ ثَمَانِيَةُ أَوْعَالٍ بَيْنَ أَظْلَافِهِنَّ وَرُكَبِهِنَّ مِثْلُ مَا بَيْنَ سَمَاءٍ إِلَى سَمَاءٍ ثُمَّ فَوْقَ ظُهُورِهِنَّ الْعَرْشُ بَيْنَ أَسْفَلِهِ وَأَعْلَاهُ مِثْلُ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ إِلَى السَّمَاءِ وَاللَّهُ فَوْقَ ذَلِكَ قَالَ عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ مَعِينٍ يَقُولُ أَلَا يُرِيدُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَعْدٍ أَنْ يَحُجَّ حَتَّى نَسْمَعَ مِنْهُ هَذَا الْحَدِيثَ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَرَوَى الْوَلِيدُ بْنُ أَبِي ثَوْرٍ عَنْ سِمَاكٍ نَحْوَهُ وَرَفَعَهُ وَرَوَى شَرِيكٌ عَنْ سِمَاكٍ بَعْضَ هَذَا الْحَدِيثِ وَوَقَفَهُ وَلَمْ يَرْفَعْهُ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ هُوَ ابْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعْدٍ الرَّازِيُّ
کتاب: قرآن کریم کی تفسیر کے بیان میں سورہ حاقہ سے بعض آیات کی تفسیر عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میں وادی بطحاء میں صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ بیٹھاہوا تھا اور آپ بھی انہیں لوگوں میں تشریف فرماتھے ، اچانک لوگوں کے اوپر سے ایک بدلی گزری، لوگ اسے دیکھنے لگے، رسول اللہ ﷺ نے ان سے پوچھا کیا تم جانتے ہو اس کا نام کیا ہے؟لوگوں نے کہا: ہاں ہم جانتے ہیں، یہ سحاب ہے، آپ نے فرمایا:' کیا یہ مزن ہے؟ لوگوں نے کہا: ہاں یہ مزن بھی ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:' کیا اسے عنان ۱؎ بھی کہتے ہیں، لوگوں نے کہا: ہاں یہ عنان بھی ہے، پھر آپ نے لوگوں سے کہا: کیا تم جانتے ہو آسمان اور زمین کے درمیان کتنی دوری ہے؟ لوگوں نے کہا: نہیں، قسم اللہ کی ہم نہیں جانتے ، آپ نے فرمایا:' ان دونوں میں اکہتر( ۷۱)بہتر(۷۲) یاتہتر (۷۳) سال کا فرق ہے اور جو آسمان اس کے اوپر ہے وہ بھی اتنا ہی دور ہے، اور اسی فرق کے ساتھ آپ نے سات آسمان گن ڈالے، پھر آپ نے فرمایا:' ساتویں آسمان پر ایک دریا ہے جس کی اوپری سطح اور نچلی سطح میں اتنی دوری ہے جتنی ایک آسمان سے دوسرے آسمان کی دوری ہے (یعنی وہ اتنا زیادہ گہرا ہے) اور ان کے اوپر آٹھ جنگلی بکرے (فرشتے ) ہیں جن کی کھروں اور گھٹنوں کے درمیان اتنی دوری اور لمبائی ہے جتنی دوری اور لمبائی ایک آسمان سے دوسرے آسمان کے درمیان ہے، پھران کی پیٹھوں پر عرش ہے، عرش کی نچلی سطح اور اوپری سطح میں ایک آسمان سے دوسرے آسمان کی سی دوری ہے ( یعنی عرش اتنا موٹا ہے )اور اللہ اس کے اوپر ہے۔ عبدبن حمید کہتے ہیں کہ میں نے یحییٰ بن معین کو کہتے ہوئے سنا ہے ، عبدالرحمن بن سعد حج کرنے کیوں نہیں جاتے کہ وہاں ان سے یہ حدیث ہم سنتے ۲؎ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،۲- ولید بن ابوثور نے سماک سے اسی طرح یہ حدیث روایت کی ہے اور اسے مرفوعاً روایت کیا ہے،۳- شریک نے سماک سے اس حدیث کے بعض حصوں کی روایت کی ہے اور اسے موقوفا ً روایت کیا ہے ، مرفوعاً نہیں کیا،۴- عبدالرحمن ، یہ ابن عبداللہ بن سعد رازی ہیں۔