جامع الترمذي - حدیث 3318

أَبْوَابُ تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب وَمِنْ سُورَةِ التَّحْرِيمِ​ حسن حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي ثَوْرٍ قَال سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يَقُولُ لَمْ أَزَلْ حَرِيصًا أَنْ أَسْأَلَ عُمَرَ عَنْ الْمَرْأَتَيْنِ مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّتَيْنِ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا حَتَّى حَجَّ عُمَرُ وَحَجَجْتُ مَعَهُ فَصَبَبْتُ عَلَيْهِ مِنْ الْإِدَاوَةِ فَتَوَضَّأَ فَقُلْتُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ مَنْ الْمَرْأَتَانِ مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّتَانِ قَالَ اللَّهُ إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا وَإِنْ تَظَاهَرَا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلَاهُ فَقَالَ لِي وَاعَجَبًا لَكَ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ قَالَ الزُّهْرِيُّ وَكَرِهَ وَاللَّهِ مَا سَأَلَهُ عَنْهُ وَلَمْ يَكْتُمْهُ فَقَالَ هِيَ عَائِشَةُ وَحَفْصَةُ قَالَ ثُمَّ أَنْشَأَ يُحَدِّثُنِي الْحَدِيثَ فَقَالَ كُنَّا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ نَغْلِبُ النِّسَاءَ فَلَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ وَجَدْنَا قَوْمًا تَغْلِبُهُمْ نِسَاؤُهُمْ فَطَفِقَ نِسَاؤُنَا يَتَعَلَّمْنَ مِنْ نِسَائِهِمْ فَتَغَضَّبْتُ عَلَى امْرَأَتِي يَوْمًا فَإِذَا هِيَ تُرَاجِعُنِي فَقَالَتْ مَا تُنْكِرُ مِنْ ذَلِكَ فَوَاللَّهِ إِنَّ أَزْوَاجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيُرَاجِعْنَهُ وَتَهْجُرُهُ إِحْدَاهُنَّ الْيَوْمَ إِلَى اللَّيْلِ قَالَ فَقُلْتُ فِي نَفْسِي قَدْ خَابَتْ مَنْ فَعَلَتْ ذَلِكَ مِنْهُنَّ وَخَسِرَتْ قَالَ وَكَانَ مَنْزِلِي بِالْعَوَالِي فِي بَنِي أُمَيَّةَ وَكَانَ لِي جَارٌ مِنْ الْأَنْصَارِ كُنَّا نَتَنَاوَبُ النُّزُولَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَنْزِلُ يَوْمًا فَيَأْتِينِي بِخَبَرِ الْوَحْيِ وَغَيْرِهِ وَأَنْزِلُ يَوْمًا فَآتِيهِ بِمِثْلِ ذَلِكَ قَالَ وَكُنَّا نُحَدِّثُ أَنَّ غَسَّانَ تُنْعِلُ الْخَيْلَ لِتَغْزُوَنَا قَالَ فَجَاءَنِي يَوْمًا عِشَاءً فَضَرَبَ عَلَى الْبَابِ فَخَرَجْتُ إِلَيْهِ فَقَالَ حَدَثَ أَمْرٌ عَظِيمٌ قُلْتُ أَجَاءَتْ غَسَّانُ قَالَ أَعْظَمُ مِنْ ذَلِكَ طَلَّقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نِسَاءَهُ قَالَ فَقُلْتُ فِي نَفْسِي قَدْ خَابَتْ حَفْصَةُ وَخَسِرَتْ قَدْ كُنْتُ أَظُنُّ هَذَا كَائِنًا قَالَ فَلَمَّا صَلَّيْتُ الصُّبْحَ شَدَدْتُ عَلَيَّ ثِيَابِي ثُمَّ انْطَلَقْتُ حَتَّى دَخَلْتُ عَلَى حَفْصَةَ فَإِذَا هِيَ تَبْكِي فَقُلْتُ أَطَلَّقَكُنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ لَا أَدْرِي هُوَ ذَا مُعْتَزِلٌ فِي هَذِهِ الْمَشْرَبَةِ قَالَ فَانْطَلَقْتُ فَأَتَيْتُ غُلَامًا أَسْوَدَ فَقُلْتُ اسْتَأْذِنْ لِعُمَرَ قَالَ فَدَخَلَ ثُمَّ خَرَجَ إِلَيَّ قَالَ قَدْ ذَكَرْتُكَ لَهُ فَلَمْ يَقُلْ شَيْئًا قَالَ فَانْطَلَقْتُ إِلَى الْمَسْجِدِ فَإِذَا حَوْلَ الْمِنْبَرِ نَفَرٌ يَبْكُونَ فَجَلَسْتُ إِلَيْهِمْ ثُمَّ غَلَبَنِي مَا أَجِدُ فَأَتَيْتُ الْغُلَامَ فَقُلْتُ اسْتَأْذِنْ لِعُمَرَ فَدَخَلَ ثُمَّ خَرَجَ إِلَيَّ فَقَالَ قَدْ ذَكَرْتُكَ لَهُ فَلَمْ يَقُلْ شَيْئًا قَالَ فَانْطَلَقْتُ إِلَى الْمَسْجِدِ أَيْضًا فَجَلَسْتُ ثُمَّ غَلَبَنِي مَا أَجِدُ فَأَتَيْتُ الْغُلَامَ فَقُلْتُ اسْتَأْذِنْ لِعُمَرَ فَدَخَلَ ثُمَّ خَرَجَ إِلَيَّ فَقَالَ قَدْ ذَكَرْتُكَ لَهُ فَلَمْ يَقُلْ شَيْئًا قَالَ فَوَلَّيْتُ مُنْطَلِقًا فَإِذَا الْغُلَامُ يَدْعُونِي فَقَالَ ادْخُلْ فَقَدْ أُذِنَ لَكَ فَدَخَلْتُ فَإِذَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَّكِئٌ عَلَى رَمْلِ حَصِيرٍ قَدْ رَأَيْتُ أَثَرَهُ فِي جَنْبَيْهِ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَطَلَّقْتَ نِسَاءَكَ قَالَ لَا قُلْتُ اللَّهُ أَكْبَرُ لَقَدْ رَأَيْتُنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَكُنَّا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ نَغْلِبُ النِّسَاءَ فَلَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ وَجَدْنَا قَوْمًا تَغْلِبُهُمْ نِسَاؤُهُمْ فَطَفِقَ نِسَاؤُنَا يَتَعَلَّمْنَ مِنْ نِسَائِهِمْ فَتَغَضَّبْتُ يَوْمًا عَلَى امْرَأَتِي فَإِذَا هِيَ تُرَاجِعُنِي فَأَنْكَرْتُ ذَلِكَ فَقَالَتْ مَا تُنْكِرُ فَوَاللَّهِ إِنَّ أَزْوَاجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيُرَاجِعْنَهُ وَتَهْجُرُهُ إِحْدَاهُنَّ الْيَوْمَ إِلَى اللَّيْلِ قَالَ فَقُلْتُ لِحَفْصَةَ أَتُرَاجِعِينَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ نَعَمْ وَتَهْجُرُهُ إِحْدَانَا الْيَوْمَ إِلَى اللَّيْلِ فَقُلْتُ قَدْ خَابَتْ مَنْ فَعَلَتْ ذَلِكَ مِنْكُنَّ وَخَسِرَتْ أَتَأْمَنُ إِحْدَاكُنَّ أَنْ يَغْضَبَ اللَّهُ عَلَيْهَا لِغَضَبِ رَسُولِهِ فَإِذَا هِيَ قَدْ هَلَكَتْ فَتَبَسَّمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَقُلْتُ لِحَفْصَةَ لَا تُرَاجِعِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا تَسْأَلِيهِ شَيْئًا وَسَلِينِي مَا بَدَا لَكِ وَلَا يَغُرَّنَّكِ إِنْ كَانَتْ صَاحِبَتُكِ أَوْسَمَ مِنْكِ وَأَحَبَّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَتَبَسَّمَ أُخْرَى فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَسْتَأْنِسُ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَرَفَعْتُ رَأْسِي فَمَا رَأَيْتُ فِي الْبَيْتِ إِلَّا أُهُبَةً ثَلَاثَةً قَالَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ادْعُ اللَّهَ أَنْ يُوَسِّعَ عَلَى أُمَّتِكَ فَقَدْ وَسَّعَ عَلَى فَارِسَ وَالرُّومِ وَهُمْ لَا يَعْبُدُونَهُ فَاسْتَوَى جَالِسًا فَقَالَ أَفِي شَكٍّ أَنْتَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ أُولَئِكَ قَوْمٌ عُجِّلَتْ لَهُمْ طَيِّبَاتُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا قَالَ وَكَانَ أَقْسَمَ أَنْ لَا يَدْخُلَ عَلَى نِسَائِهِ شَهْرًا فَعَاتَبَهُ اللَّهُ فِي ذَلِكَ وَجَعَلَ لَهُ كَفَّارَةَ الْيَمِينِ قَالَ الزُّهْرِيُّ فَأَخْبَرَنِي عُرْوَةُ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ فَلَمَّا مَضَتْ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ دَخَلَ عَلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَدَأَ بِي قَالَ يَا عَائِشَةُ إِنِّي ذَاكِرٌ لَكِ شَيْئًا فَلَا تَعْجَلِي حَتَّى تَسْتَأْمِرِي أَبَوَيْكِ قَالَتْ ثُمَّ قَرَأَ هَذِهِ الْآيَةَ يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ الْآيَةَ قَالَتْ عَلِمَ وَاللَّهِ أَنَّ أَبَوَيَّ لَمْ يَكُونَا يَأْمُرَانِي بِفِرَاقِهِ فَقُلْتُ أَفِي هَذَا أَسْتَأْمِرُ أَبَوَيَّ فَإِنِّي أُرِيدُ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الْآخِرَةَ قَالَ مَعْمَرٌ فَأَخْبَرَنِي أَيُّوبُ أَنَّ عَائِشَةَ قَالَتْ لَهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ لَا تُخْبِرْ أَزْوَاجَكَ أَنِّي اخْتَرْتُكَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا بَعَثَنِي اللَّهُ مُبَلِّغًا وَلَمْ يَبْعَثْنِي مُتَعَنِّتًا قَالَ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ

ترجمہ جامع ترمذی - حدیث 3318

کتاب: قرآن کریم کی تفسیر کے بیان میں سورہ تحریم سے بعض آیات کی تفسیر​ عبید اللہ بن عبداللہ بن ابی ثور کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کو کہتے ہوئے سنا : میری برابر یہ خواہش رہی کہ میں عمر رضی اللہ عنہ سے نبی اکرم ﷺ کی ان دو بیویوں کے بارے میں پوچھوں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے {إِن تَتُوبَا إِلَی اللَّہِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُکُمَا} ۱؎ (مگر مجھے موقع اس وقت ملا) جب عمر رضی اللہ عنہ نے حج کیااور میں نے بھی ان کے ساتھ حج کیا، میں نے ڈول سے پانی ڈال کر انہیں وضو کرایا، (اسی دوران) میں نے ان سے پوچھا : امیر المؤمنین ! نبی اکرمﷺکی وہ دوبیویاں کون ہیں جن کے بارے میں اللہ نے کہا ہے {إِن تَتُوبَا إِلَی اللَّہِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُکُمَا}عمر رضی اللہ عنہ نے مجھ سے حیرت سے کہا: ہائے تعجب ! اے ابن عباس (تمہیں اتنی سی بات معلوم نہیں) (زہری کہتے ہیں قسم اللہ کی ابن عباس نے جوبات پوچھی وہ انہیں بری لگی مگر انہوں نے حقیقت چھپائی نہیں بتادی) انہوں نے مجھے بتایا: وہ عائشہ اور حفصہ ہیں ، پھروہ مجھے پوری بات بتانے لگے کہا: ہم قریش والے عورتوں پر حاوی رہتے اور انہیں دباکر رکھتے تھے، مگر جب مدینہ آئے تو یہاں ایسے لوگ ملے جن پر ان کی بیویاں غالب اور حاوی ہوتی تھیں، تو ہماری عورتیں ان کی عورتوں سے ان کے رنگ ڈھنگ سیکھنے لگیں، ایک دن ایسا ہواکہ میں اپنی بیوی پر غصہ ہوگیا، کیا دیکھتاہوں کہ وہ بھی مجھے پلٹ کر جواب دینے لگی، مجھے (سخت) ناگوار ہوا کہ وہ مجھے پلٹ کر جواب دے، اس نے کہا: آپ کو یہ بات کیوں ناگوار لگ رہی ہے؟ قسم اللہ کی نبی اکرم ﷺ کی بعض بیویاں بھی آپ ﷺ کو پلٹ کر جواب دے رہی ہیں اور دن سے رات تک آپ کو چھوڑ ے رہتی ہیں (روٹھی اور اینٹھی رہتی ) ہیں، میں نے اپنے جی میں کہا: آپ کی بیویوں میں سے جس نے بھی ایسا کیا وہ ناکام ہوئی اور گھاٹے میں رہی، میرا گھر مدینہ کے بنی امیہ نامی محلہ میں عوالی کے علاقہ میں تھا، اور میراایک انصاری پڑوسی تھا ، ہم باری باری رسول اللہ ﷺ کے پاس آیاکرتے تھے، ایک دن وہ آتا اور جوکچھ ہوا ہوتا وہ واپس جاکر مجھے بتاتا، اور ایسے ہی ایک دن میں آپ کے پاس آتا اور وحی وغیرہ کی جو بھی خبر ہوتی میں جاکراسے بتاتا ، ہم (اس وقت) باتیں کیاکرتے تھے کہ اہل غسان ہم سے لڑائی کرنے کے لیے اپنے گھوڑوں کے پیروں میں نعلیں ٹھونک رہے ہیں، ایک دن عشاء کے وقت ہمارے پڑوسی انصاری نے آکر ، دروازہ کھٹکھٹایا ،میں دروازہ کھول کر اس کے پاس گیا ، اس نے کہا: ایک بڑی بات ہوگئی ہے ، میں نے پوچھا : کیا اہل غسان ہم پر چڑھائی کرآئے ہیں؟ اس نے کہا: اس سے بھی بڑا معاملہ پیش آگیا ہے، رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے، میں نے اپنے جی میں کہا: حفصہ ناکام رہی گھاٹے میں پڑی، میں سوچا کرتاتھا کہ ایسا ہونے والا ہے، جب میں نے فجر پڑھی تو اپنے کپڑے پہنے اور چل پڑا، حفصہ کے پاس پہنچا تو وہ (بیٹھی) رورہی تھی، میں نے پوچھا: کیا تم سب بیویوں کو رسول اللہ ﷺ نے طلاق دے دی ہے؟ انہوں نے کہا:مجھے نہیں معلوم ہے، البتہ آپ اس بالاخانے پرالگ تھلگ بیٹھے ہیں، عمر کہتے ہیں: میں (اٹھ کر آپ سے ملنے) چلا، میں ایک کالے رنگ کے (دربان) لڑکے کے پاس آیااور اس سے کہا: جاؤ ، آپﷺسے عمر کے آنے کی اجازت مانگو، عمر کہتے ہیں: وہ لڑکا آپ کے پاس گیا پھر نکل کر میرے پاس آیا اور کہا: میں نے آپ کے آنے کی خبرکی مگر آپ نے کچھ نہ کہا،میں مسجد چلا گیا (دیکھا) منبر کے آس پاس کچھ لوگ بیٹھے رورہے تھے، میں بھی انہیں لوگوں کے پاس بیٹھ گیا، (مجھے سکون نہ ملا) میری فکر وتشویش بڑھتی گئی، میں اٹھ کر دوبارہ لڑکے کے پاس چلا آیا ، میں نے کہا: جاؤ آپ سے عمر کے اندر آنے کی اجازت مانگو، تو وہ اندر گیا پھر میرے پاس واپس آیا، اس نے کہا : میں نے آپ کا ذکر نبی اکرم ﷺ سے کیا ،لیکن آپ نے کوئی جواب نہ دیا، عمر کہتے ہیں: میں دوبارہ مسجد میں آکر بیٹھ گیا، مگر مجھ پر پھر وہی فکر سوار ہوگئی، میں (سہ بارہ) لڑکے کے پاس آگیا اور اس سے کہا: جاؤ اور آپ سے عمر کے اند ر آنے کی اجازت مانگو، وہ لڑکا اندر گیا پھر میرے پاس واپس آیا ، کہا: میں نے آپ سے آپ کے آنے کا ذکر کیا مگر آپ نے کوئی جواب نہ دیا، (یہ سن کر) میں پلٹ پڑا، یکایک لڑکا مجھے پکارنے لگا، (آجائیے آجائیے) اندر تشریف لے جائیے، رسول اللہ ﷺ نے آپ کو اجازت دے دی ہے، میں اندر چلاگیا، میں نے دیکھا آپ بوریئے پر ٹیک لگائے ہوئے ہیں اور اس کا اثر ونشان آپ کے پہلؤں میں دیکھا ، میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! کیا آپ نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے؟ آپ نے فرمایا:' نہیں، میں نے کہا: اللہ اکبر، آپ نے دیکھا ہوگا اللہ کے رسول! ہم قریشی لوگ اپنی بیویوں پر کنٹرول رکھتے تھے ، لیکن جب ہم مدینہ آگئے تو ہمارا سابقہ ایک ایک ایسی قوم سے پڑگیا ہے جن پر ان کی بیویاں حاوی اور غالب رہتی ہیں، ہماری عورتیں ان کی عورتوں سے (ان کے طورطریقے) سیکھنے لگیں، ایک دن اپنی بیوی پر غصہ ہوا تو وہ مجھے پلٹ کرجواب دینے لگی، مجھے یہ سخت برا لگا، کہنے لگی آپ کو کیوں اتنا برالگ رہاہے، قسم اللہ کی نبی اکرم ﷺ کی بعض بیویاں بھی آپ کو پلٹ کرجواب دے رہی ہیں اور کوئی بھی عورت دن سے رات تک آپ کو چھوڑ کر (روٹھی واینٹھی) رہتی ہے، میں نے حفصہ سے کہا: کیا تم پلٹ کر رسول اللہ ﷺ کو جواب دیتی ہو ؟ اس نے کہا: ہاں، ہم میں کوئی بھی آپ سے (خفا ہوکر) دن سے رات تک آپ سے علیحدہ رہتی ہے، میں نے کہا: تم میں سے جس نے بھی ایساکیا وہ گھاٹے میں ر ہی اورناکام ہوئی،کیا تم میں سے ہر کوئی اس بات سے مطمئن ہے کہ اللہ اپنے رسول کی ناراضگی کے سبب اس سے ناراض وناخوش ہوجائے اور وہ ہلاک وبرباد ہوجائے؟ (یہ سن کر) آپﷺ مسکراپڑے، عمر نے کہا: میں نے حفصہ سے کہا: رسول اللہ ﷺ کو پلٹ کر جواب نہ دو اور نہ آپ سے کسی چیز کا مطالبہ کرو، جس چیز کی تمہیں حاجت ہو وہ مجھ سے مانگ لیاکرو، اور تم بھروسے میں نہ رہو تمہاری سوکن توتم سے زیادہ خوبصورت اور رسول اللہ ﷺ کی چہیتی ہے ۲؎ (یہ سن کر) رسول اللہ ﷺ پھرمسکرا دیئے، میں نے کہا: اللہ کے رسول! کیا میں دل بستگی کی بات کروں؟ آپ نے فرمایا:' ہاں، عمر کہتے ہیں: میں نے سر اٹھا یا توگھر میں تین کچی کھالوں کے سوا کوئی اور چیز دکھائی نہ دی، میں نے عرض کیا، اللہ کے رسول! اللہ سے دعا فرمایئے کہ وہ آپ کی امت کو وہ کشادگی وفراوانی دے جو اس نے روم وفارس کودی ہے ، جب کہ وہ اس کی عبادت بندگی بھی نہیں کرتے ہیں، (یہ سن کر) آپ جم کر بیٹھ گئے، کہا: خطاب کے بیٹے! کیا تم ابھی تک اسلام کی حقانیت کے بارے میں شک وشبہہ میں پڑے ہو ئے ہو؟ یہ ایسے لوگ ہیں جنہیں ان کے حصہ کی اچھی چیزیں پہلے ہی دنیا میں دے دی گئی ہیں، عمر ؓ کہتے ہیں: آپ نے قسم کھائی تھی کہ آپ ایک مہینہ تک اپنی بیویوں کے پاس نہ جائیں گے، اس پر اللہ تعالیٰ نے فہمائش کی اور آپ کو کفارہ یمین (قسم کا کفارہ) اداکرنے کا حکم دیا۔ زہری کہتے ہیں: عروہ نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہوئے کہاکہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بتایا کہ جب مہینے کے ۲۹؍دن گزرگئے تونبی اکرم ﷺ سب سے پہلے میرے پاس تشریف لائے، آپ نے فرمایا:' میں تم سے ایک بات کا ذکر کرنے والاہوں، اپنے والدین سے مشورہ کئے بغیر جواب دینے میں جلدی نہ کرنا، پھر آپ نے یہ آیت پڑھی {یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ قُل لأَزْوَاجِکَ} (آخر آیت تک) عائشہ کہتی ہیں: آپ جانتے تھے، قسم اللہ کی میرے والدین مجھے آپ سے علیحدگی اختیار کرلینے کا ہرگز حکم نہ دیں گے، میں نے کہا: کیا میں اس معاملے میں والدین سے مشورہ کروں؟ میں تو اللہ اور اس کے رسول اور آخرت کے گھر کو چاہتی اورپسند کرتی ہوں۔ معمر کہتے ہیں : مجھے ایوب نے خبردی کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ سے کہاکہ اے اللہ کے رسول ! آپ اپنی دوسری بیویوں کونہ بتائیے گا کہ میں نے آپ کو چنا اور پسند کیا ہے، آپ نے فرمایا:' اللہ نے مجھے پیغام پہنچانے کے لیے بھیجاہے تکلیف پہنچانے اور مشقت میں ڈالنے کے لیے نہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے اور کئی سندوں سے ابن عباس سے آئی ہے۔