أَبْوَابُ تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب وَمِنْ سُورَةِ الْمُمْتَحِنَةِ حسن حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الشَّيْبَانِيُّ قَال سَمِعْتُ شَهْرَ بْنَ حَوْشَبٍ قَالَ حَدَّثَتْنَا أُمُّ سَلَمَةَ الْأَنْصَارِيَّةُ قَالَتْ قَالَتْ امْرَأَةٌ مِنْ النِّسْوَةِ مَا هَذَا الْمَعْرُوفُ الَّذِي لَا يَنْبَغِي لَنَا أَنْ نَعْصِيَكَ فِيهِ قَالَ لَا تَنُحْنَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ بَنِي فُلَانٍ قَدْ أَسْعَدُونِي عَلَى عَمِّي وَلَا بُدَّ لِي مِنْ قَضَائِهِنَّ فَأَبَى عَلَيَّ فَأَتَيْتُهُ مِرَارًا فَأَذِنَ لِي فِي قَضَائِهِنَّ فَلَمْ أَنُحْ بَعْدَ قَضَائِهِنَّ وَلَا عَلَى غَيْرِهِ حَتَّى السَّاعَةَ وَلَمْ يَبْقَ مِنْ النِّسْوَةِ امْرَأَةٌ إِلَّا وَقَدْ نَاحَتْ غَيْرِي قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَفِيهِ عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَ عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ أُمُّ سَلَمَةَ الْأَنْصَارِيَّةُ هِيَ أَسْمَاءُ بِنْتُ يَزِيدَ بْنِ السَّكَنِ
کتاب: قرآن کریم کی تفسیر کے بیان میں سورہ ممتحنہ سے بعض آیات کی تفسیر ام سلمہ انصاریہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : عورتوں میں سے ایک عورت نے عرض کیا: (اللہ کے رسول!) اس معروف سے کیا مراد ہے جس میں ہمیں آپ کی نافرمانی نہیں کرنی چاہیے، آپ نے فرمایا:' وہ یہی ہے کہ تم (کسی کے مرنے پر) نوحہ مت کرو'، میں نے کہا: اللہ کے رسول! فلاں قبیلے کی عورتوں نے نوحہ کرنے میں میری مدد کی تھی جب میں نے اپنے چچا پرنوحہ کیا تھا،اس لیے میرے لیے ضروری ہے کہ جب ان کے نوحہ کرنے کا وقت آئے تومیں ان کے ساتھ نوحہ میں شریک ہوکر اس کا بدلہ چکاؤں، آپ نے انکار کیا، (مجھے اجازت نہ دی) میں نے کئی بار آپ سے اپنی عرض دہرائی تو آپ نے مجھے ان کا بدلہ چکا دینے کی اجازت دے دی، اس بدلہ کے چکادینے کے بعد پھر میں نے نہ ان پر اور نہ ہی کسی اور پراب قیامت تک نوحہ (جبکہ)میرے سواکوئی عورت ایسی باقی نہیں ہے جس نے نوحہ نہ کیاہو ۱؎ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن ہے،۲- اس باب میں ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے بھی روایت ہے،۳- عبد بن حمید کہتے ہیں ، ام سلمہ انصاریہ ہی اسماء بنت یزید بن السکن ہیں رضی اللہ عنہا ۔