جامع الترمذي - حدیث 3299

أَبْوَابُ تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب وَمِنْ سُورَةِ الْمُجَادَلَةِ​ صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوانِيُّ الْمَعْنَى وَاحِدٌ قَالَا حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَقَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ عَنْ سَلَمَةَ بْنِ صَخْرٍ الْأَنْصَارِيِّ قَالَ كُنْتُ رَجُلًا قَدْ أُوتِيتُ مِنْ جِمَاعِ النِّسَاءِ مَا لَمْ يُؤْتَ غَيْرِي فَلَمَّا دَخَلَ رَمَضَانُ تَظَاهَرْتُ مِنْ امْرَأَتِي حَتَّى يَنْسَلِخَ رَمَضَانُ فَرَقًا مِنْ أَنْ أُصِيبَ مِنْهَا فِي لَيْلَتِي فَأَتَتَابَعَ فِي ذَلِكَ إِلَى أَنْ يُدْرِكَنِي النَّهَارُ وَأَنَا لَا أَقْدِرُ أَنْ أَنْزِعَ فَبَيْنَمَا هِيَ تَخْدُمُنِي ذَاتَ لَيْلَةٍ إِذْ تَكَشَّفَ لِي مِنْهَا شَيْءٌ فَوَثَبْتُ عَلَيْهَا فَلَمَّا أَصْبَحْتُ غَدَوْتُ عَلَى قَوْمِي فَأَخْبَرْتُهُمْ خَبَرِي فَقُلْتُ انْطَلِقُوا مَعِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأُخْبِرَهُ بِأَمْرِي فَقَالُوا لَا وَاللَّهِ لَا نَفْعَلُ نَتَخَوَّفُ أَنْ يَنْزِلَ فِينَا قُرْآنٌ أَوْ يَقُولَ فِينَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَقَالَةً يَبْقَى عَلَيْنَا عَارُهَا وَلَكِنْ اذْهَبْ أَنْتَ فَاصْنَعْ مَا بَدَا لَكَ قَالَ فَخَرَجْتُ فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتُهُ خَبَرِي فَقَالَ أَنْتَ بِذَاكَ قُلْتُ أَنَا بِذَاكَ قَالَ أَنْتَ بِذَاكَ قُلْتُ أَنَا بِذَاكَ قَالَ أَنْتَ بِذَاكَ قُلْتُ أَنَا بِذَاكَ وَهَا أَنَا ذَا فَأَمْضِ فِيَّ حُكْمَ اللَّهِ فَإِنِّي صَابِرٌ لِذَلِكَ قَالَ أَعْتِقْ رَقَبَةً قَالَ فَضَرَبْتُ صَفْحَةَ عُنُقِي بِيَدِي فَقُلْتُ لَا وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَا أَمْلِكُ غَيْرَهَا قَالَ صُمْ شَهْرَيْنِ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَهَلْ أَصَابَنِي مَا أَصَابَنِي إِلَّا فِي الصِّيَامِ قَالَ فَأَطْعِمْ سِتِّينَ مِسْكِينًا قُلْتُ وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَقَدْ بِتْنَا لَيْلَتَنَا هَذِهِ وَحْشَى مَا لَنَا عَشَاءٌ قَالَ اذْهَبْ إِلَى صَاحِبِ صَدَقَةِ بَنِي زُرَيْقٍ فَقُلْ لَهُ فَلْيَدْفَعْهَا إِلَيْكَ فَأَطْعِمْ عَنْكَ مِنْهَا وَسْقًا سِتِّينَ مِسْكِينًا ثُمَّ اسْتَعِنْ بِسَائِرِهِ عَلَيْكَ وَعَلَى عِيَالِكَ قَالَ فَرَجَعْتُ إِلَى قَوْمِي فَقُلْتُ وَجَدْتُ عِنْدَكُمْ الضِّيقَ وَسُوءَ الرَّأْيِ وَوَجَدْتُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ السَّعَةَ وَالْبَرَكَةَ أَمَرَ لِي بِصَدَقَتِكُمْ فَادْفَعُوهَا إِلَيَّ فَدَفَعُوهَا إِلَيَّ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ قَالَ مُحَمَّدٌ سُلَيْمَانُ بْنُ يَسَارٍ لَمْ يَسْمَعْ عِنْدِي مِنْ سَلَمَةَ بْنِ صَخْرٍ قَالَ وَيُقَالُ سَلَمَةُ بْنُ صَخْرٍ وَيُقَالُ سَلْمَانُ بْنُ صَخْرٍ وَفِي الْبَاب عَنْ خَوْلَةَ بِنْتِ ثَعْلَبَةَ وَهِيَ امْرَأَةُ أَوْسِ بْنِ الصَّامِتِ

ترجمہ جامع ترمذی - حدیث 3299

کتاب: قرآن کریم کی تفسیر کے بیان میں سورہ مجادلہ سے بعض آیات کی تفسیر​ سلمہ بن صخرانصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: مجھے عورت سے جماع کی جتنی شہوت وقوت ملی تھی (میں سمجھتا ہوں) اتنی کسی کوبھی نہ ملی ہوگی، جب رمضان کا مہینہ آیا تو میں نے اس ڈر سے کہ کہیں میں رمضان کی رات میں بیوی سے ملوں (صحبت کربیٹھوں) اور پے در پے جماع کئے ہی جاؤں کہ اتنے میں صبح ہوجائے اور میں اسے چھوڑ کر علیحدہ نہ ہوپاؤں ، میں نے رمضان کے ختم ہونے تک کے لیے بیوی سے ظہار ۱؎ کرلیا، پھر ایسا ہواکہ ایک رات میری بیوی میری خدمت کررہی تھی کہ اچانک مجھے اس کی ایک چیز دکھائی پڑگئی تو میں (اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکا) اسے دھر دبوچا، جب صبح ہوئی تو میں اپنی قوم کے پاس آیا اورانہیں اپنے حال سے باخبر کیا، میں نے ان سے کہا کہ میرے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے پاس چلو تاکہ میں آپ کو اپنے معاملے سے باخبر کردوں ، ان لوگوں نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم ! ہم نہ جائیں گے ، ہمیں ڈر ہے کہ کہیں ہمارے متعلق قرآن (کوئی آیت) نازل نہ ہوجائے، یار سول اللہ ﷺ کوئی بات نہ کہہ دیں جس کی شرمندگی برقرار رہے، البتہ تم خود ہی جاؤ اور جو مناسب ہو کرو، تو میں گھر سے نکلا اور رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچا اور آپ کو اپنی بات بتائی، آپ نے فرمایا:' تم نے یہ کام کیا ہے؟ میں نے کہا: ہاں ، میں نے ایساکیا ہے، آپ نے کہا: تم نے ایساکیا ہے؟ میں نے کہا: ہاں، میں نے ایساکیا ہے آپ نے (تیسری بار بھی یہی ) پوچھا: تو نے یہ بات کی ہے، میں نے کہا: ہاں، مجھ سے ہی ایسی بات ہوئی ہے، مجھ پرا للہ کا حکم جاری ونافذ فرمائیے ، میں اپنی اس بات پر ثابت وقائم رہنے والا ہوں، آپ نے فرمایا:' ایک غلام آزاد کرو، میں نے اپنی گردن پر ہاتھ مار کر کہا: قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے! میں اپنی اس گردن کے سوا کسی اور گردن کا مالک نہیں ہوں (غلام کیسے آزاد کروں) آپ نے فرمایا:' پھر دومہینے کے صیام رکھو، میں نے کہا: اللہ کے رسول! مجھے جو پریشانی ومصیبت لاحق ہوئی ہے وہ اسی صیام ہی کی وجہ سے تو لاحق ہوئی ہے، آپ نے فرمایا:' تو پھر ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلادو'،میں نے کہا: قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے! ہم نے یہ رات بھوکے رہ کر گزاری ہے، ہمارے پاس رات کابھی کھانا نہ تھا، آپ نے فرمایا:' بنو زریق کے صدقہ دینے والوں کے پاس جاؤ اور اس سے کہو کہ وہ تمہیں صدقہ کا مال دے دیں اوراس میں سے تم ایک وسق ساٹھ مسکینوں کو اپنے کفارہ کے طورپر کھلادو اور باقی جوکچھ بچے وہ اپنے اوپر اورا پنے بال بچوں پر خرچ کرو، وہ کہتے ہیں: پھر میں لوٹ کر اپنی قوم کے پاس آیا ، میں نے کہا: میں نے تمہارے پاس تنگی ،بدخیالی اور بری رائے وتجویز پائی، جب کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس کشادگی اور برکت پائی، رسول اللہ ﷺ نے مجھے تمہارا صدقہ لینے کا حکم دیا ہے تو تم لوگ اسے مجھے دے دو، چنانچہ ان لوگوں نے مجھے دے دیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے،۲- محمدبن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: سلیمان بن یسارنے میرے نزدیک سلمہ بن صخر سے نہیں سنا ہے، سلمہ بن صخر کو سلمان بن صخربھی کہتے ہیں،۳- اس باب میں خولہ بنت ثعلبہ سے بھی روایت ہے، اور یہ اوس بن صامت کی بیوی ہیں( رضی اللہ عنہما )۔