أَبْوَابُ تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب وَمِنْ سُورَةِ الأَحْقَافِ ضعيف حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ سَعِيدٍ الْكِنْدِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو مُحَيَّاةَ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ ابْنِ أَخِي عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ قَالَ لَمَّا أُرِيدَ عُثْمَانُ جَاءَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ فَقَالَ لَهُ عُثْمَانُ مَا جَاءَ بِكَ قَالَ جِئْتُ فِي نَصْرِكَ قَالَ اخْرُجْ إِلَى النَّاسِ فَاطْرُدْهُمْ عَنِّي فَإِنَّكَ خَارِجٌ خَيْرٌ لِي مِنْكَ دَاخِلٌ فَخَرَجَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ إِلَى النَّاسِ فَقَالَ أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّهُ كَانَ اسْمِي فِي الْجَاهِلِيَّةِ فُلَانٌ فَسَمَّانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَبْدَ اللَّهِ وَنَزَلَ فِيَّ آيَاتٌ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ نَزَلَتْ فِيَّ وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَى مِثْلِهِ فَآمَنَ وَاسْتَكْبَرْتُمْ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ وَنَزَلَتْ فِيَّ قُلْ كَفَى بِاللَّهِ شَهِيدًا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ وَمَنْ عِنْدَهُ عِلْمُ الْكِتَابِ إِنَّ لِلَّهِ سَيْفًا مَغْمُودًا عَنْكُمْ وَإِنَّ الْمَلَائِكَةَ قَدْ جَاوَرَتْكُمْ فِي بَلَدِكُمْ هَذَا الَّذِي نَزَلَ فِيهِ نَبِيُّكُمْ فَاللَّهَ اللَّهَ فِي هَذَا الرَّجُلِ أَنْ تَقْتُلُوهُ فَوَاللَّهِ إِنْ قَتَلْتُمُوهُ لَتَطْرُدُنَّ جِيرَانَكُمْ الْمَلَائِكَةَ وَلَتَسُلُّنَّ سَيْفَ اللَّهِ الْمَغْمُودَ عَنْكُمْ فَلَا يُغْمَدُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ قَالَ فَقَالُوا اقْتُلُوا الْيَهُودِيَّ وَاقْتُلُوا عُثْمَانَ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَقَدْ رَوَاهُ شُعَيْبُ بْنُ صَفْوَانَ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ ابْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ عَنْ جَدِّهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ
کتاب: قرآن کریم کی تفسیر کے بیان میں سورہ احقاف سے بعض آیات کی تفسیر عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کے بھتیجے کہتے ہیں کہ جب عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو جان سے مارڈالنے کا ارادہ کرلیاگیا تو عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ ان کے پاس آئے ، عثمان نے ان سے کہا: تم کس مقصد سے یہاں آئے ہو؟ انہوں نے کہا: میں آپ کی مدد میں(آپ کو بچانے کے لیے) آیاہوں، انہوں نے کہا: تم لوگوں کے پاس جاؤ اور انہیں مجھ سے دور ہٹا دو ، تمہارا میرے پاس رہنے سے باہر رہنا زیادہ بہتر ہے، چنانچہ عبداللہ بن سلام لوگوں کے پاس آئے اور انہیں مخاطب کرکے کہا: لوگو! میرانام جاہلیت میں فلاں تھا (یعنی حصین)پھر رسول اللہ ﷺ نے میرانام عبداللہ رکھا ، میرے بارے میں کتاب اللہ کی کئی آیات نازل ہوئیں ، میرے بارے میں آیت: { وَشَہِدَ شَاہِدٌ مِّن بَنِی إِسْرَائِیلَ عَلَی مِثْلِہِ فَآمَنَ وَاسْتَکْبَرْتُمْ إِنَّ اللَّہَ لا یَہْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِینَ } (الأحقاف :10) ۱؎ اور میرے ہی حق میں { شَہِیدًا بَیْنِی وَبَیْنَکُمْ وَمَنْ عِندَہُ عِلْمُ الْکِتَابِ} (الرعد:43) ۲؎ آیت اتری ہے،بیشک اللہ کے پاس ایسی تلوار ہے جو تمہیں نظر نہیں آتی ، بیشک تمہارے اس شہر میں جس میں تمہارے بنی بھیجے گئے، فرشتے تمہارے پڑوسی ہیں، تو ڈرو اللہ سے، ڈرو اللہ سے اس شخص (عثمان) کے قتل کردینے سے،قسم ہے اللہ کی اگر تم لوگوں نے انہیں قتل کرڈالا تو تم اپنے پڑوسی فرشتوں کو اپنے سے دور کردو گے (بھگادوگے) اور اللہ کی وہ تلوار جو تمہاری نظروں سے پوشیدہ ہے تمہارے خلاف سونت دی جائے گی، پھر وہ قیامت تک میان میں ڈالی نہ جاسکے گی، راوی کہتے ہیں:لوگوں نے (عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بات سن کر) کہا: اس یہودی کو قتل کردو، اور عثمان رضی اللہ عنہ کو بھی مار ڈالو قتل کردو۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،۲- اس حدیث کو شعیب بن صفوان نے عبدالملک بن عمیر سے اورعبدالملک بن عمیرنے ابن محمد بن عبداللہ بن سلام سے اورابن محمد نے اپنے دادا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔