أَبْوَابُ تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب وَمِنْ سُورَةِ الدُّخَانِ صحيح حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْجُدِّيُّ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ الْأَعْمَشِ وَمَنْصُورٍ سَمِعَا أَبَا الضُّحَى يُحَدِّثُ عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ فَقَالَ إِنَّ قَاصًّا يَقُصُّ يَقُولُ إِنَّهُ يَخْرُجُ مِنْ الْأَرْضِ الدُّخَانُ فَيَأْخُذُ بِمَسَامِعِ الْكُفَّارِ وَيَأْخُذُ الْمُؤْمِنَ كَهَيْئَةِ الزُّكَامِ قَالَ فَغَضِبَ وَكَانَ مُتَّكِئًا فَجَلَسَ ثُمَّ قَالَ إِذَا سُئِلَ أَحَدُكُمْ عَمَّا يَعْلَمُ فَلْيَقُلْ بِهِ قَالَ مَنْصُورٌ فَلْيُخْبِرْ بِهِ وَإِذَا سُئِلَ عَمَّا لَا يَعْلَمُ فَلْيَقُلْ اللَّهُ أَعْلَمُ فَإِنَّ مِنْ عِلْمِ الرَّجُلِ إِذَا سُئِلَ عَمَّا لَا يَعْلَمُ أَنْ يَقُولَ اللَّهُ أَعْلَمُ فَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى قَالَ لِنَبِيِّهِ قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنَا مِنْ الْمُتَكَلِّفِينَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا رَأَى قُرَيْشًا اسْتَعْصَوْا عَلَيْهِ قَالَ اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَيْهِمْ بِسَبْعٍ كَسَبْعِ يُوسُفَ فَأَخَذَتْهُمْ سَنَةٌ فَأَحْصَتْ كُلَّ شَيْءٍ حَتَّى أَكَلُوا الْجُلُودَ وَالْمَيْتَةَ وَقَالَ أَحَدُهُمَا الْعِظَامَ قَالَ وَجَعَلَ يَخْرُجُ مِنْ الْأَرْضِ كَهَيْئَةِ الدُّخَانِ فَأَتَاهُ أَبُو سُفْيَانَ فَقَالَ إِنَّ قَوْمَكَ قَدْ هَلَكُوا فَادْعُ اللَّهَ لَهُمْ قَالَ فَهَذَا لِقَوْلِهِ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ يَغْشَى النَّاسَ هَذَا عَذَابٌ أَلِيمٌ قَالَ مَنْصُورٌ هَذَا لِقَوْلِهِ رَبَّنَا اكْشِفْ عَنَّا الْعَذَابَ إِنَّا مُؤْمِنُونَ فَهَلْ يُكْشَفُ عَذَابُ الْآخِرَةِ قَدْ مَضَى الْبَطْشَةُ وَاللِّزَامُ وَالدُّخَانُ و قَالَ أَحَدُهُمْ الْقَمَرُ وَقَالَ الْآخَرُ الرُّومُ قَالَ أَبُو عِيسَى وَاللِّزَامُ يَعْنِي يَوْمَ بَدْرٍ قَالَ وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ
کتاب: قرآن کریم کی تفسیر کے بیان میں سورہ دخان سے بعض آیات کی تفسیر مسروق کہتے ہیں کہ ایک شخص نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آکرکہا: ایک قصہ گو(واعظ) قصہ بیان کرتے ہوئے کہہ رہاتھا (قیامت کے قریب) زمین سے دھواں نکلے گا ،جس سے کافروں کے کان بند ہوجائیں گے، اور مسلمانوں کو زکام ہوجائے گا۔ مسروق کہتے ہیں: یہ سن کر عبداللہ غصہ ہوگئے (پہلے) ٹیک لگائے ہوئے تھے، (سنبھل کر ) بیٹھ گئے۔ پھر کہا: تم میں سے جب کسی سے کوئی چیز پوچھی جائے اور وہ اس کے بارے میں جانتا ہو توا سے بتانی چاہیے اور جب کسی ایسی چیز کے بارے میں پوچھا جائے جسے وہ نہ جانتا ہو تو اسے اللہ اعلم (اللہ بہتر جانتا ہے) کہنا چاہیے، کیوں کہ یہ آدمی کے علم وجانکاری ہی کی بات ہے کہ جب اس سے کسی ایسی چیز کے بارے میں پوچھا جائے جسے وہ نہ جانتا ہو تو وہ کہہ دے' اللہ اعلم'(اللہ بہترجانتاہے) ، اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے فرمایا:'{ قُلْ مَا أَسْأَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنَا مِنْ الْمُتَکَلِّفِینَ } ۱؎ (بات اس دخان کی یہ ہے کہ ) جب رسول اللہ ﷺ نے قریش کو دیکھا کہ وہ نافرمانی ہی کیے جارہے ہیں توآپ نے کہا: اے اللہ! یوسف علیہ السلام کے سات سالہ قحط کی طرح ان پر سات سالہ قحط بھیج کر ہماری مدد کر (آپ کی دعا قبول ہوگئی)، ان پر قحط پڑگیا، ہرچیز اس سے متاثر ہوگئی، لوگ چمڑے اور مردار کھانے لگے (اس حدیث کے دونوں راویوں اعمش ومنصور میں سے ایک نے کہا ہڈیاں بھی کھانے لگے) ، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: دھواں جیسی چیز زمین سے نکلنے لگی، تو ابوسفیان نے آپ کے پاس آکر کہا: آپ کی قوم ہلاک وبرباد ہوگئی، آپ ان کی خاطر اللہ سے دعا فرمادیجئے عبداللہ نے کہا: یہی مراد ہے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان {فَارْتَقِبْ یَوْمَ تَأْتِی السَّمَاء بِدُخَانٍ مُّبِینٍ یَغْشَی النَّاسَ ہَذَا عَذَابٌ أَلِیمٌ} (الدخان :10-11) ۲؎ کا، منصور کہتے ہیں:یہی مفہوم ہے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان {رَبَّنَا اکْشِفْ عَنَّا الْعَذَابَ إِنَّا مُؤْمِنُونَ} (الدخان:12) ۳؎ کا، تو کیا آخرت کا عذاب ٹالا جاسکے گا؟ ۔ عبداللہ کہتے ہیں: بطشہ ، لزام(بدر) اور دخان کا ذکر وزمانہ گزرگیا اعمش اور منصور دونوں راویوں میں سے، ایک نے کہا: قمر (چاند ) کا شق ہونا گزرگیا، اور دوسرے نے کہا: روم کے مغلوب ہونے کا واقعہ بھی پیش آچکا ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- لزام سے مراد یوم بدر ہے۔