جامع الترمذي - حدیث 3233

أَبْوَابُ تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ ص​ صحیح حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ قَالَا حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَانِي اللَّيْلَةَ رَبِّي تَبَارَكَ وَتَعَالَى فِي أَحْسَنِ صُورَةٍ قَالَ أَحْسَبُهُ قَالَ فِي الْمَنَامِ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ هَلْ تَدْرِي فِيمَ يَخْتَصِمُ الْمَلَأُ الْأَعْلَى قَالَ قُلْتُ لَا قَالَ فَوَضَعَ يَدَهُ بَيْنَ كَتِفَيَّ حَتَّى وَجَدْتُ بَرْدَهَا بَيْنَ ثَدْيَيَّ أَوْ قَالَ فِي نَحْرِي فَعَلِمْتُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ قَالَ يَا مُحَمَّدُ هَلْ تَدْرِي فِيمَ يَخْتَصِمُ الْمَلَأُ الْأَعْلَى قُلْتُ نَعَمْ قَالَ فِي الْكَفَّارَاتِ وَالْكَفَّارَاتُ الْمُكْثُ فِي الْمَسَاجِدِ بَعْدَ الصَّلَوَاتِ وَالْمَشْيُ عَلَى الْأَقْدَامِ إِلَى الْجَمَاعَاتِ وَإِسْبَاغُ الْوُضُوءِ فِي الْمَكَارِهِ وَمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ عَاشَ بِخَيْرٍ وَمَاتَ بِخَيْرٍ وَكَانَ مِنْ خَطِيئَتِهِ كَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ وَقَالَ يَا مُحَمَّدُ إِذَا صَلَّيْتَ فَقُلْ اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ فِعْلَ الْخَيْرَاتِ وَتَرْكَ الْمُنْكَرَاتِ وَحُبَّ الْمَسَاكِينِ وَإِذَا أَرَدْتَ بِعِبَادِكَ فِتْنَةً فَاقْبِضْنِي إِلَيْكَ غَيْرَ مَفْتُونٍ قَالَ وَالدَّرَجَاتُ إِفْشَاءُ السَّلَامِ وَإِطْعَامُ الطَّعَامِ وَالصَّلَاةُ بِاللَّيْلِ وَالنَّاسُ نِيَامٌ قَالَ أَبُو عِيسَى وَقَدْ ذَكَرُوا بَيْنَ أَبِي قِلَابَةَ وَبَيْنَ ابْنِ عَبَّاسٍ فِي هَذَا الْحَدِيثِ رَجُلًا وَقَدْ رَوَاهُ قَتَادَةُ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ عَنْ خَالِدِ بْنِ اللَّجْلَاجِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ

ترجمہ جامع الترمذي - حدیث 3233

كتاب: قرآن کریم کی تفسیر کے بیان میں باب: سورہ "ص" سے بعض آیات کی تفسیر​ عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میرا بزرگ وبرتر رب بہترین صورت میں میرے پاس آیا۔ مجھے خیال پڑتا ہے کہ آپﷺ نے فرمایا: -خواب میں- رب کریم نے کہا: اے محمد! کیا تمہیں معلوم ہے کہ (اَلْمَلَأُ الْأَعْلیٰ)(اونچے مرتبے والے فرشتے) کس بات پر آپس میں لڑ جھگڑ رہے ہیں، آپﷺ نے فرمایا: میں نے کہا کہ میں نہیں جانتا تو اللہ نے اپنا ہاتھ میرے دونوں کندھوں کے بیچ میں رکھ دیا جس کی ٹھنڈ ک میں نے اپنی چھاتیوں کے درمیان محسوس کی، یا اپنے سینے میں یا (نحری) کہا، (ہاتھ کندھے پررکھنے کے بعد) آسمان اور زمین میں جو کچھ ہے، وہ میں جان گیا، رب کریم نے کہا: اے محمدﷺ! کیا تم جانتے ہو ملا ٔ اعلی میں کس بات پر جھگڑا ہو رہا ہے، (بحث وتکرار ہو رہی ہے) ؟ میں نے کہا: ہاں، کفارات گناہوں کو مٹا دینے والی چیزوں کے بارے میں (کہ وہ کون کون سی چیزیں ہیں؟) (فرمایا:) کفارات یہ ہیں: (۱) نماز کے بعد مسجد میں بیٹھ کر دوسری نماز کا انتظار کرنا، (۲) پیروں سے چل کر نماز باجماعت کے لیے مسجد میں جانا، (۳) ناگواری کے باوجود با قاعدگی سے وضو کرنا، جو ایسا کرے گا بھلائی کی زندگی گزارے گا، اور بھلائی کے ساتھ مرے گا اور اپنے گناہوں سے اس طرح پاک وصاف ہو جائے گا جس طرح وہ اس دن پاک وصاف تھا جس دن اس کی ماں نے اسے جنا تھا، رب کریم کہے گا: اے محمدﷺ! جب تم نماز پڑھ چکو تو کہو: (اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ فِعْلَ الْخَيْرَاتِ وَتَرْكَ الْمُنْكَرَاتِ وَحُبَّ الْمَسَاكِينِ وَإِذَا أَرَدْتَ بِعِبَادِكَ فِتْنَةً فَاقْبِضْنِي إِلَيْكَ غَيْرَ مَفْتُونٍ )۱؎ آپﷺ نے فرمایا: درجات بلند کرنے والی چیزیں (۱) سلام کو پھیلانا عام کرنا ہے، (۲) (محتاج ومسکین) کو کھانا کھلانا ہے، (۳) رات کو تہجد پڑھنا ہے کہ جب لوگ سو رہے ہوں۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱۔ کچھ محدثین نے ابوقلابہ اور ابن عباس ؓ کے درمیان اس حدیث میں ایک شخص کا ذکر کیا ہے۔ (اور وہ خالد بن لجلاج ہیں ان کی روایت آگے آ رہی ہے)۔۲۔ اس حدیث کو قتادہ نے ابو قلابہ سے روایت کی ہے اور ابو قلابہ نے خالد بن لجلاج سے، اور خالد بن الجلاج نے ابن عباس سے روایت کی ہے۔
تشریح : وضاحت:۱؎: اے اللہ میں تجھ سے بھلے کام کرنے کی توفیق طلب کرتا ہوں، اور ناپسندیدہ و منکر کاموں سے بچنا چاہتا ہوں اور مسکینوں سے محبت کرنا چاہتا ہوں، اور جب تو اپنے بندوں کو کسی آزمائش میں ڈالنا چاہیے تو فتنے میں ڈالے جانے سے پہلے مجھے اپنے پاس بلا لے۔۲؎: مؤلف نے اس حدیث کو ارشاد باری تعالیٰ ﴿مَا كَانَ لِي مِنْ عِلْمٍ بِالْمَلإِ الأَعْلَى إِذْ يَخْتَصِمُونَ﴾(ص:69) کی تفسیر میں ذکر کیا ہے۔ وضاحت:۱؎: اے اللہ میں تجھ سے بھلے کام کرنے کی توفیق طلب کرتا ہوں، اور ناپسندیدہ و منکر کاموں سے بچنا چاہتا ہوں اور مسکینوں سے محبت کرنا چاہتا ہوں، اور جب تو اپنے بندوں کو کسی آزمائش میں ڈالنا چاہیے تو فتنے میں ڈالے جانے سے پہلے مجھے اپنے پاس بلا لے۔۲؎: مؤلف نے اس حدیث کو ارشاد باری تعالیٰ ﴿مَا كَانَ لِي مِنْ عِلْمٍ بِالْمَلإِ الأَعْلَى إِذْ يَخْتَصِمُونَ﴾(ص:69) کی تفسیر میں ذکر کیا ہے۔