جامع الترمذي - حدیث 3218

أَبْوَابُ تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب وَمِنْ سُورَةِ الأَحْزَابِ​ صحيح حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ الضُّبَعِيُّ عَنْ الْجَعْدِ بْنِ عُثْمَانَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ تَزَوَّجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَخَلَ بِأَهْلِهِ قَالَ فَصَنَعَتْ أُمِّي أُمُّ سُلَيْمٍ حَيْسًا فَجَعَلَتْهُ فِي تَوْرٍ فَقَالَتْ يَا أَنَسُ اذْهَبْ بِهَذَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْ لَهُ بَعَثَتْ بِهَذَا إِلَيْكَ أُمِّي وَهِيَ تُقْرِئُكَ السَّلَامَ وَتَقُولُ إِنَّ هَذَا لَكَ مِنَّا قَلِيلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ فَذَهَبْتُ بِهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ إِنَّ أُمِّي تُقْرِئُكَ السَّلَامَ وَتَقُولُ إِنَّ هَذَا مِنَّا لَكَ قَلِيلٌ فَقَالَ ضَعْهُ ثُمَّ قَالَ اذْهَبْ فَادْعُ لِي فُلَانًا وَفُلَانًا وَفُلَانًا وَمَنْ لَقِيتَ فَسَمَّى رِجَالًا قَالَ فَدَعَوْتُ مَنْ سَمَّى وَمَنْ لَقِيتُ قَالَ قُلْتُ لِأَنَسٍ عَدَدُ كَمْ كَانُوا قَالَ زُهَاءَ ثَلَاثِ مِائَةٍ قَالَ وَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا أَنَسُ هَاتِ التَّوْرَ قَالَ فَدَخَلُوا حَتَّى امْتَلَأَتْ الصُّفَّةُ وَالْحُجْرَةُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيَتَحَلَّقْ عَشَرَةٌ عَشَرَةٌ وَلْيَأْكُلْ كُلُّ إِنْسَانٍ مِمَّا يَلِيهِ قَالَ فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا قَالَ فَخَرَجَتْ طَائِفَةٌ وَدَخَلَتْ طَائِفَةٌ حَتَّى أَكَلُوا كُلُّهُمْ قَالَ فَقَالَ لِي يَا أَنَسُ ارْفَعْ قَالَ فَرَفَعْتُ فَمَا أَدْرِي حِينَ وَضَعْتُ كَانَ أَكْثَرَ أَمْ حِينَ رَفَعْتُ قَالَ وَجَلَسَ مِنْهُمْ طَوَائِفُ يَتَحَدَّثُونَ فِي بَيْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ وَزَوْجَتُهُ مُوَلِّيَةٌ وَجْهَهَا إِلَى الْحَائِطِ فَثَقُلُوا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَلَّمَ عَلَى نِسَائِهِ ثُمَّ رَجَعَ فَلَمَّا رَأَوْا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ رَجَعَ ظَنُّوا أَنَّهُمْ قَدْ ثَقُلُوا عَلَيْهِ قَالَ فَابْتَدَرُوا الْبَابَ فَخَرَجُوا كُلُّهُمْ وَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَرْخَى السِّتْرَ وَدَخَلَ وَأَنَا جَالِسٌ فِي الْحُجْرَةِ فَلَمْ يَلْبَثْ إِلَّا يَسِيرًا حَتَّى خَرَجَ عَلَيَّ وَأُنْزِلَتْ هَذِهِ الْآيَاتُ فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَرَأَهُنَّ عَلَى النَّاسِ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلَّا أَنْ يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَى طَعَامٍ غَيْرَ نَاظِرِينَ إِنَاهُ وَلَكِنْ إِذَا دُعِيتُمْ فَادْخُلُوا فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا وَلَا مُسْتَأْنِسِينَ لِحَدِيثٍ إِنَّ ذَلِكُمْ كَانَ يُؤْذِي النَّبِيَّ إِلَى آخِرِ الْآيَةِ قَالَ الْجَعْدُ قَالَ أَنَسٌ أَنَا أَحْدَثُ النَّاسِ عَهْدًا بِهَذِهِ الْآيَاتِ وَحُجِبْنَ نِسَاءُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْجَعْدُ هُوَ ابْنُ عُثْمَانَ وَيُقَالُ هُوَ ابْنُ دِينَارٍ وَيُكْنَ أَبَا عُثْمَانَ بَصْرِيٌّ وَهُوَ ثِقَةٌ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ رَوَى عَنْهُ يُونُسُ بْنُ عُبَيْدٍ وَشُعْبَةُ وَحَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ

ترجمہ جامع ترمذی - حدیث 3218

کتاب: قرآن کریم کی تفسیر کے بیان میں سورہ احزاب سے بعض آیات کی تفسیر​ انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے نکاح کیا اور اپنی بیوی (زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا ) کے پاس تشریف لے گئے، اس موقع پر میری ماں ام سلیم رضی اللہ عنہا نے حیس ۱؎ تیارکیا،اسے ایک چھوٹے برتن میں رکھا،پھر (مجھ سے) کہا: ( بیٹے) انس!اسے لے کر رسول اللہﷺ کے پاس جاؤ اور آپ سے کہو: اسے میری امی جان نے آپ کے پاس بھیجا ہے اور انہوں نے آپ کو سلام عرض کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ تھوڑا سا ہدیہ میری طرف سے آپ کی خدمت میں پیش ہے، اللہ کے رسول! میں اسے لے کر رسول اللہ ﷺ کے پاس گیا ، میں نے عرض کیا: میری امی جان آپ کو سلام کہتی ہیں اور کہتی ہیں : یہ میری طرف سے آپ کے لیے تھوڑا سا ہدیہ ہے ۔ آپ نے فرمایا:' اسے رکھ دو ، پھر فرمایا:' جاؤ فلاں فلاں ، اور فلاں کچھ لوگوں کے نام لیے اور جو بھی تمہیں ملے سب کومیرے پاس بلاکر لے آؤ، انس کہتے ہیں: جن کے نام آپ نے لیے تھے انہیں اور جوبھی مجھے آتے جاتے ملا اسے بلالیا، راوی جعد بن عثمان کہتے ہیں : میں نے انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کتنے لوگ رہے ہوں گے؟ انہوں نے کہا: تقریباً تین سو ، انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: پھر مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:' انس (تَور) پیالہ لے آؤ۔ انس کہتے ہیں: لوگ اندر آئے یہاں تک کہ صفہ (چبوترہ) اور کمرہ سب بھر گیا، آپ نے فرمایا:' دس دس افراد کی ٹولی بنالو اور ہر شخص اپنے قریب سے کھائے'،لوگوں نے پیٹ بھرکر کھایا، ایک ٹولی (کھاکر )باہر جاتی اور دوسری ٹولی (کھانے کے لیے) اندر آجاتی اس طرح سبھی نے کھالیا۔ آپﷺ نے مجھ سے کہا: انس : اب (برتن) اٹھالو'۔ میں نے (پیالہ) اٹھالیا، مگر(صحیح صحیح) بتانہ پاؤں گا کہ جب میں نے پیالہ لاکر رکھا تھا تب اس میں حیس زیادہ تھا یاجب اٹھایا تھا تب؟ کچھ لوگ کھانے سے فارغ ہوکر آپ کے گھر میں بیٹھ کر آپس میں باتیں کرنے لگ گئے۔( انہوں نے کچھ بھی خیال نہ کیاکہ) رسول اللہ ﷺ تشریف فرماہیں اور آپ کی اہلیہ محترمہ دیوار کی طرف منہ پھیرے بیٹھی ہیں، وہ لوگ رسول اللہ ﷺ پر بوجھ بن گئے ،آپ وہاں سے اٹھ کر اپنی دوسری بیویوں کی طرف چلے گئے اور انہیں سلام کیا (مزاج پرسی کی) اور پھر لوٹ آیے، جب لوگوں نے دیکھا کہ آپ لوٹ آیے ہیں تو انہیں احساس وگمان ہوا کہ وہ لوگ آپ کے لیے باعث اذیت بن گئے ہیں ، تو وہ لوگ تیزی سے دروازہ کی طرف بڑھے اور سب کے سب باہر نکل گئے۔ رسول اللہ ﷺ آیے دروازہ کا پردہ گرادیا اور خود اندر چلے گئے ، میں کمرے میں بیٹھا ہواتھا۔ تھوڑی ہی دیر بعد رسول اللہ ﷺ میرے پاس تشریف لائے اور آپ پریہ آیتیں اتریں پھرآپ نے باہر آکر لوگوں کو یہ آیتیں { یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لا تَدْخُلُوا بُیُوتَ النَّبِیِّ إِلاَّ أَنْ یُؤْذَنَ لَکُمْ إِلَی طَعَامٍ غَیْرَ نَاظِرِینَ إِنَاہُ وَلَکِنْ إِذَا دُعِیتُمْ فَادْخُلُوا فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا وَلاَ مُسْتَأْنِسِینَ لِحَدِیثٍ إِنَّ ذَلِکُمْ کَانَ یُؤْذِی النَّبِیَّ } ۲؎ آخرتک پڑھ کر سنائیں۔ میں ان آیات سے سب سے پہلا واقف ہونے والا ہوں، اور اسی وقت سے رسول اللہ ﷺ کی بیویاں پردہ کرنے لگیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- جعد : عثمان کے بیٹے ہیں، اور یہ بھی کہاجاتاہے کہ یہ دینار کے بیٹے ہیں اور ان کی کنیت ابوعثمان بصری ہے، اور یہ محدثین کے نزدیک ثقہ (قوی) ہیں، ان سے یونس بن عبید ، شعبہ اورحماد بن زید نے روایت کی ہے۔