جامع الترمذي - حدیث 3180

أَبْوَابُ تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب وَمِنْ سُورَةِ النُّورِ​ صحيح حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ أَخْبَرَنِي أَبِي عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ لَمَّا ذُكِرَ مِنْ شَأْنِي الَّذِي ذُكِرَ وَمَا عَلِمْتُ بِهِ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيَّ خَطِيبًا فَتَشَهَّدَ وَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ ثُمَّ قَالَ أَمَّا بَعْدُ أَشِيرُوا عَلَيَّ فِي أُنَاسٍ أَبَنُوا أَهْلِي وَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ عَلَى أَهْلِي مِنْ سُوءٍ قَطُّ وَأَبَنُوا بِمَنْ وَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ عَلَيْهِ مِنْ سُوءٍ قَطُّ وَلَا دَخَلَ بَيْتِي قَطُّ إِلَّا وَأَنَا حَاضِرٌ وَلَا غِبْتُ فِي سَفَرٍ إِلَّا غَابَ مَعِي فَقَامَ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ ائْذَنْ لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنْ أَضْرِبَ أَعْنَاقَهُمْ وَقَامَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي الْخَزْرَجِ وَكَانَتْ أُمُّ حَسَّانَ ابْنِ ثَابِتٍ مِنْ رَهْطِ ذَلِكَ الرَّجُلِ فَقَالَ كَذَبْتَ أَمَا وَاللَّهِ أَنْ لَوْ كَانُوا مِنْ الْأَوْسِ مَا أَحْبَبْتَ أَنْ تُضْرَبَ أَعْنَاقُهُمْ حَتَّى كَادَ أَنْ يَكُونَ بَيْنَ الْأَوْسِ وَالْخَزْرَجِ شَرٌّ فِي الْمَسْجِدِ وَمَا عَلِمْتُ بِهِ فَلَمَّا كَانَ مَسَاءُ ذَلِكَ الْيَوْمِ خَرَجْتُ لِبَعْضِ حَاجَتِي وَمَعِي أُمُّ مِسْطَحٍ فَعَثَرَتْ فَقَالَتْ تَعِسَ مِسْطَحٌ فَقُلْتُ لَهَا أَيْ أُمُّ تَسُبِّينَ ابْنَكِ فَسَكَتَتْ ثُمَّ عَثَرَتْ الثَّانِيَةَ فَقَالَتْ تَعِسَ مِسْطَحٌ فَانْتَهَرْتُهَا فَقُلْتُ لَهَا أَيْ أُمُّ تَسُبِّينَ ابْنَكِ فَسَكَتَتْ ثُمَّ عَثَرَتْ الثَّالِثَةَ فَقَالَتْ تَعِسَ مِسْطَحٌ فَانْتَهَرْتُهَا فَقُلْتُ لَهَا أَيْ أُمُّ تَسُبِّينَ ابْنَكِ فَقَالَتْ وَاللَّهِ مَا أَسُبُّهُ إِلَّا فِيكِ فَقُلْتُ فِي أَيِّ شَيْءٍ قَالَتْ فَبَقَرَتْ لِي الْحَدِيثَ قُلْتُ وَقَدْ كَانَ هَذَا قَالَتْ نَعَمْ وَاللَّهِ لَقَدْ رَجَعْتُ إِلَى بَيْتِي وَكَأَنَّ الَّذِي خَرَجْتُ لَهُ لَمْ أَخْرُجْ لَا أَجِدُ مِنْهُ قَلِيلًا وَلَا كَثِيرًا وَوُعِكْتُ فَقُلْتُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْسِلْنِي إِلَى بَيْتِ أَبِي فَأَرْسَلَ مَعِي الْغُلَامَ فَدَخَلْتُ الدَّارَ فَوَجَدْتُ أُمَّ رُومَانَ فِي السُّفْلِ وَأَبُو بَكْرٍ فَوْقَ الْبَيْتِ يَقْرَأُ فَقَالَتْ أُمِّي مَا جَاءَ بِكِ يَا بُنَيَّةُ قَالَتْ فَأَخْبَرْتُهَا وَذَكَرْتُ لَهَا الْحَدِيثَ فَإِذَا هُوَ لَمْ يَبْلُغْ مِنْهَا مَا بَلَغَ مِنِّي قَالَتْ يَا بُنَيَّةُ خَفِّفِي عَلَيْكِ الشَّأْنَ فَإِنَّهُ وَاللَّهِ لَقَلَّمَا كَانَتْ امْرَأَةٌ حَسْنَاءُ عِنْدَ رَجُلٍ يُحِبُّهَا لَهَا ضَرَائِرُ إِلَّا حَسَدْنَهَا وَقِيلَ فِيهَا فَإِذَا هِيَ لَمْ يَبْلُغْ مِنْهَا مَا بَلَغَ مِنِّي قَالَتْ قُلْتُ وَقَدْ عَلِمَ بِهِ أَبِي قَالَتْ نَعَمْ قُلْتُ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ نَعَمْ وَاسْتَعْبَرْتُ وَبَكَيْتُ فَسَمِعَ أَبُو بَكْرٍ صَوْتِي وَهُوَ فَوْقَ الْبَيْتِ يَقْرَأُ فَنَزَلَ فَقَالَ لِأُمِّي مَا شَأْنُهَا قَالَتْ بَلَغَهَا الَّذِي ذُكِرَ مِنْ شَأْنِهَا فَفَاضَتْ عَيْنَاهُ فَقَالَ أَقَسَمْتُ عَلَيْكِ يَا بُنَيَّةُ إِلَّا رَجَعْتِ إِلَى بَيْتِكِ فَرَجَعْتُ وَلَقَدْ جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْتِي فَسَأَلَ عَنِّي خَادِمَتِي فَقَالَتْ لَا وَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ عَلَيْهَا عَيْبًا إِلَّا أَنَّهَا كَانَتْ تَرْقُدُ حَتَّى تَدْخُلَ الشَّاةُ فَتَأْكُلَ خَمِيرَتَهَا أَوْ عَجِينَتَهَا وَانْتَهَرَهَا بَعْضُ أَصْحَابِهِ فَقَالَ أَصْدِقِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَسْقَطُوا لَهَا بِهِ فَقَالَتْ سُبْحَانَ اللَّهِ وَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ عَلَيْهَا إِلَّا مَا يَعْلَمُ الصَّائِغُ عَلَى تِبْرِ الذَّهَبِ الْأَحْمَرِ فَبَلَغَ الْأَمْرُ ذَلِكَ الرَّجُلَ الَّذِي قِيلَ لَهُ فَقَالَ سُبْحَانَ اللَّهِ وَاللَّهِ مَا كَشَفْتُ كَنَفَ أُنْثَى قَطُّ قَالَتْ عَائِشَةُ فَقُتِلَ شَهِيدًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ قَالَتْ وَأَصْبَحَ أَبَوَايَ عِنْدِي فَلَمْ يَزَالَا حَتَّى دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ صَلَّى الْعَصْرَ ثُمَّ دَخَلَ وَقَدْ اكْتَنَفَنِي أَبَوَايَ عَنْ يَمِينِي وَعَنْ شِمَالِي فَتَشَهَّدَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ ثُمَّ قَالَ أَمَّا بَعْدُ يَا عَائِشَةُ إِنْ كُنْتِ قَارَفْتِ سُوءًا أَوْ ظَلَمْتِ فَتُوبِي إِلَى اللَّهِ فَإِنَّ اللَّهَ يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ قَالَتْ وَقَدْ جَاءَتْ امْرَأَةٌ مِنْ الْأَنْصَارِ وَهِيَ جَالِسَةٌ بِالْبَابِ فَقُلْتُ أَلَا تَسْتَحْيِي مِنْ هَذِهِ الْمَرْأَةِ أَنْ تَذْكُرَ شَيْئًا فَوَعَظَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَالْتَفَتُّ إِلَى أَبِي فَقُلْتُ أَجِبْهُ قَالَ فَمَاذَا أَقُولُ فَالْتَفَتُّ إِلَى أُمِّي فَقُلْتُ أَجِيبِيهِ قَالَتْ أَقُولُ مَاذَا قَالَتْ فَلَمَّا لَمْ يُجِيبَا تَشَهَّدْتُ فَحَمِدْتُ اللَّهَ وَأَثْنَيْتُ عَلَيْهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ ثُمَّ قُلْتُ أَمَا وَاللَّهِ لَئِنْ قُلْتُ لَكُمْ إِنِّي لَمْ أَفْعَلْ وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنِّي لَصَادِقَةٌ مَا ذَاكَ بِنَافِعِي عِنْدَكُمْ لِي لَقَدْ تَكَلَّمْتُمْ وَأُشْرِبَتْ قُلُوبُكُمْ وَلَئِنْ قُلْتُ إِنِّي قَدْ فَعَلْتُ وَاللَّهُ يَعْلَمُ أَنِّي لَمْ أَفْعَلْ لَتَقُولُنَّ إِنَّهَا قَدْ بَاءَتْ بِهِ عَلَى نَفْسِهَا وَإِنِّي وَاللَّهِ مَا أَجِدُ لِي وَلَكُمْ مَثَلًا قَالَتْ وَالْتَمَسْتُ اسْمَ يَعْقُوبَ فَلَمْ أَقْدِرْ عَلَيْهِ إِلَّا أَبَا يُوسُفَ حِينَ قَالَ فَصَبْرٌ جَمِيلٌ وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَ قَالَتْ وَأُنْزِلَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ سَاعَتِهِ فَسَكَتْنَا فَرُفِعَ عَنْهُ وَإِنِّي لَأَتَبَيَّنُ السُّرُورَ فِي وَجْهِهِ وَهُوَ يَمْسَحُ جَبِينَهُ وَيَقُولُ الْبُشْرَى يَا عَائِشَةُ فَقَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ بَرَاءَتَكِ قَالَتْ فَكُنْتُ أَشَدَّ مَا كُنْتُ غَضَبًا فَقَالَ لِي أَبَوَايَ قُومِي إِلَيْهِ فَقُلْتُ لَا وَاللَّهِ لَا أَقُومُ إِلَيْهِ وَلَا أَحْمَدُهُ وَلَا أَحْمَدُكُمَا وَلَكِنْ أَحْمَدُ اللَّهَ الَّذِي أَنْزَلَ بَرَاءَتِي لَقَدْ سَمِعْتُمُوهُ فَمَا أَنْكَرْتُمُوهُ وَلَا غَيَّرْتُمُوهُ وَكَانَتْ عَائِشَةُ تَقُولُ أَمَّا زَيْنَبُ بِنْتُ جَحْشٍ فَعَصَمَهَا اللَّهُ بِدِينِهَا فَلَمْ تَقُلْ إِلَّا خَيْرًا وَأَمَّا أُخْتُهَا حَمْنَةُ فَهَلَكَتْ فِيمَنْ هَلَكَ وَكَانَ الَّذِي يَتَكَلَّمُ فِيهِ مِسْطَحٌ وَحَسَّانُ بْنُ ثَابِتٍ وَالْمُنَافِقُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ ابْنُ سَلُولَ وَهُوَ الَّذِي كَانَ يَسُوسُهُ وَيَجْمَعُهُ وَهُوَ الَّذِي تَوَلَّى كِبْرَهُ مِنْهُمْ هُوَ وَحَمْنَةُ قَالَتْ فَحَلَفَ أَبُو بَكْرٍ أَنْ لَا يَنْفَعَ مِسْطَحًا بِنَافِعَةٍ أَبَدًا فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى هَذِهِ الْآيَةَ وَلَا يَأْتَلِ أُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَالسَّعَةِ إِلَى آخِرِ الْآيَةِ يَعْنِي أَبَا بَكْرٍ أَنْ يُؤْتُوا أُولِي الْقُرْبَى وَالْمَسَاكِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يَعْنِي مِسْطَحًا إِلَى قَوْلِهِ أَلَا تُحِبُّونَ أَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ قَالَ أَبُو بَكْرٍ بَلَى وَاللَّهِ يَا رَبَّنَا إِنَّا لَنُحِبُّ أَنْ تَغْفِرَ لَنَا وَعَادَ لَهُ بِمَا كَانَ يَصْنَعُ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ وَقَدْ رَوَاهُ يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ وَمَعْمَرٌ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ وَسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ وَعَلْقَمَةَ بْنِ وَقَّاصٍ اللَّيْثِيِّ وَعُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ عَائِشَةَ هَذَا الْحَدِيثَ أَطْوَلَ مِنْ حَدِيثِ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ وَأَتَمَّ

ترجمہ جامع ترمذی - حدیث 3180

کتاب: قرآن کریم کی تفسیر کے بیان میں سورہ نورسے بعض آیات کی تفسیر​ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : جب میرے بارے میں افواہیں پھیلائی جانے لگیں جو پھیلائی گئیں، میں ان سے بے خبر تھی، رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے اور میرے تعلق سے ایک خطبہ دیا، آپ نے شہادتین پڑھیں، اللہ کے شایانِ شان تعریف وثنا کی، اور حمد وصلاۃ کے بعد فرمایا:' لوگو! ہمیں ان لوگوں کے بارے میں مشورہ دو جنہوں نے میری گھر والی پر تہمت لگائی ہے، قسم اللہ کی ! میں نے اپنی بیوی میں کبھی کوئی برائی نہیں دیکھی ، انہوں نے میری بیوی کو اس شخص کے ساتھ متہم کیا ہے جس کے بارے میں اللہ کی قسم! میں نے کبھی کوئی برائی نہیں جانی ، وہ میرے گھر میں کبھی بھی میری غیرموجو دگی میں داخل نہیں ہوا، وہ جب بھی میرے گھر میں آیا ہے میں موجود رہاہوں، اور جب بھی میں گھر سے غائب ہوا ، سفر میں رہا وہ بھی میرے ساتھ گھر سے دور سفر میں ر ہاہے، (یہ سن کر) سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہوکر ، عرض کیا : اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیجئے میں ان کی گردنیں اڑادوں، (یہ سن کر) خزرج قبیلے کا ایک اور شخص جس کے قبیلے سے حسان بن ثابت کی ماں تھیں کھڑا ہوا اس نے (سعد بن معاذ سے مخاطب ہوکر) کہا: آپ جھوٹ اور غلط بات کہہ رہے ہیں، سنئے اللہ کی قسم! اگر یہ (تہمت لگانے والے آپ کے قبیلے ) اوس کے ہوتے تو یہ پسند نہ کرتے کہ آپ ان کی گردنیں اڑادیں، یہ بحث و تکرار اتنی بڑھی کہ اوس وخزرج کے درمیان مسجدہی میں فساد عظیم برپا ہوجانے کا خطرہ پیدا ہوگیا، (عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں) مجھے اس کی بھی خبر نہ ہوئی ،جب اس دن کی شام ہوئی تو میں اپنی (قضائے حاجت کی) ضرورت سے گھر سے باہرنکلی ، میرے ساتھ مسطح کی ماں بھی تھیں، وہ (راستہ میں) ٹھوکر کھائی توکہہ اٹھیں: مسطح تباہ بربادہو! میں نے ان سے کہا: آپ کیسی ماں ہیں بیٹے کو گالی دیتی ہیں؟ تو وہ چپ رہیں، پھر دوبارہ ٹھوکر کھائی تو پھر وہی لفظ دہرایا، مسطح ہلاک ہو، میں نے پھر (ٹوکا) میں نے کہا: آپ کیسی ماں ہیں؟ اپنے بیٹے کو گالی ( بددعا) دیتی ہیں؟ وہ پھر خاموش رہیں، پھر جب تیسری بار ٹھوکر کھائی تو پھریہی لفظ دہرایاتومیں نے ڈانٹا (اور جھڑک دیا) کیسی (خراب) ماں ہیں آپ؟ اپنے ہی بیٹے کو برابھلا کہہ رہی ہیں، وہ بولیں: (بیٹی ) قسم اللہ کی میں اسے صرف تیرے معاملے میں برا بھلا کہہ رہی ہوں ، میں نے پوچھا: میرے کس معاملے میں؟ تب انہوں نے مجھے ساری باتیں کھول کھول کر بتائیں، میں نے ان سے پوچھا : کیاایسا ہوا؟ (یہ ساری باتیں پھیل گئیں؟) انہوں نے کہا: ہاں، قسم اللہ کی! یہ سن کر میں گھر لوٹ آئی ، گویا کہ میں جس کام کے لیے نکلی تھی، نکلی ہی نہیں ، مجھے اس قضائے حاجت کی تھوڑی یا زیادہ کچھ بھی ضرورت محسوس نہ ہوئی، (بلکہ) مجھے تیز بخار چڑھ آیا، میں نے رسول اللہ ﷺسے کہا: مجھے میرے ابا کے گھر بھیج دیجئے، رسول اللہ ﷺ نے میرے ساتھ ایک لڑکا کردیا، (اور میں اپنے ابا کے گھر آگئی) میں گھر میں داخل ہوئی تو (اپنی ماں) ام رومان کو نیچے پایا اور (اپنے ابا) ابوبکر کو گھر کے اوپر پڑھتے ہوئے پایا، میری ماں نے کہا: بیٹی ! کیسے آئیں؟ عائشہ کہتی ہیں: میں نے انہیں بتادیا اور انہیں ساری باتیں (اور ساراقصہ) سنادیا، مگر انہیں یہ باتیں سن کر وہ اذیت نہ پہنچی جومجھے پہنچی ، انہوں نے کہا: بیٹی !اپنے آپ کوسنبھالو، کیوں کہ اللہ کی قسم! بہت کم ایسا ہوتاہے کہ کسی مرد کی کوئی حسین وجمیل عورت ہو جس سے وہ مرد (بے انتہا) محبت کرتاہو، اس سے اس کی سوکنیں حسدنہ کرتی (اور جلن نہ رکھتی ) ہوں اور اس کے بارے میں لگائی بجھائی نہ کرتی ہوں، غرضیکہ انہیں اتنا صدمہ نہ پہنچا جتنا مجھے پہنچا، میں نے پوچھا :کیا میرے ابوجان کو بھی یہ بات معلوم ہوچکی ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں، میں نے (پھر) پوچھا کیا رسول اللہ ﷺ بھی ان باتوں سے واقف ہوچکے ہیں؟ انہوں نے کہا: ہاں، (یہ سن کر) میں غم سے نڈھال ہوگئی اور روپڑی، ابوبکر رضی اللہ عنہ چھت پر قرآن پڑھ رہے تھے، میرے رونے کی آواز سن کر نیچے اتر آئے ، میری ماں سے پوچھا، اسے کیاہوا؟ (یہ کیوں رورہی ہے؟) انہوں نے کہا: اس کے متعلق جو باتیں کہی گئیں (اور افواہیں پھیلائی گئی ہیں) وہ اسے بھی معلوم ہوگئی ہیں، (یہ سن کر) ان کی بھی آنکھیں بہہ پڑیں، (مگر ) انہوں نے کہا: اے میری (لاڈلی) بیٹی! میں تمہیں قسم دلاکر کہتاہوں تواپنے گھر لوٹ جا، میں اپنے گھر واپس ہوگئی، رسول اللہ ﷺ میرے گھر تشریف لائے اور میری لونڈی (بریرہ) سے میرے متعلق پوچھ تاچھ کی، اس نے کہا: نہیں، قسم اللہ کی ! میں ان میں کوئی عیب نہیں جانتی، ہاں ، بس یہ بات ہے کہ (کام کرتے کرتے تھک کر) سوجاتی ہیں اور بکری آکر گندھا ہوا آٹا کھاجاتی ہے، بعض صحابہ نے اسے ڈانٹا ، (باتیں نہ بنا)رسول اللہ ﷺ کو سچ سچ بتا( اس سے اس پوچھ تاچھ میں) وہ (اپنے مقام ومرتبہ سے) نیچے اتر آئے، اس نے کہا: سبحان اللہ! پاک وبرتر ہے اللہ کی ذات ، قسم اللہ کی! میں انہیں بس ایسی ہی جانتی ہوں جیسے سنار سرخ سونے کے ڈلے کو جانتا پہچانتا ہے،پھر اس معاملے کی خبر اس شخص کو بھی ہوگئی جس پر تہمت لگائی گئی تھی۔ اس نے کہا: سبحان اللہ! قسم اللہ کی ، میں نے اپنی پوری زندگی میں کبھی کسی کا سینہ اور پہلو نہیں کھولاہے ۱؎ ، عائشہ کہتی ہیں: وہ اللہ کی راہ میں شہیدہوکر مرے، میرے ماں باپ صبح ہی میرے پاس آگئے اور ہمارے ہی پاس رہے۔ عصر پڑھ کر رسول اللہ ﷺ ہمارے یہاں تشریف لے آئے، اورہمارے پاس پہنچے، میرے ماں باپ ہمارے دائیں اوربائیں بیٹھے ہوئے تھے، رسول اللہ ﷺ نے شہادتین پڑھی، اللہ کی شایان شان حمدوثنا بیان کی، پھر فرمایا: 'حمدوصلاۃ کے بعد: ' عائشہ! اگر تو برائی کی مرتکب ہوگئی یا اپنے نفس پر ظلم کربیٹھی ہے تو اللہ سے توبہ کر، اللہ اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتاہے'، اسی دوران انصار کی ایک عورت آکر دروازے میں بیٹھ گئی تھی، میں نے عرض کیا: اس عورت کے سامنے (اس طرح کی) کوئی بات کرتے ہوئے کیا آپ کو شرم محسوس نہیں ہوئی؟ بہر حال رسول اللہﷺ نے ہمیں نصیحت فرمائی، میں اپنے باپ کی طرف متوجہ ہوئی، ان سے کہا: آپ رسول اللہ ﷺ کی بات کا جواب دیں، انہوں نے کہا: میں کیاجواب دوں؟ میں اپنی ماں کی طرف پلٹی ، میں نے ان سے کہا: رسول اللہ ﷺ نے جوبات کہی ہے اس بارے میں (میری طرف سے) صفائی دیجئے ، انہوں نے کہا: کیا کہوں میں؟ جب میرے ماں باپ نے کچھ جواب نہ دیا ، تو میں نے کلمہ شہادت اداکیا، اللہ کے شایان شان اس کی حمد وثنا بیان کی، پھر میں نے کہا: سنئے ، قسم اللہ کی! اگر میں آپ لوگوں سے کہتی ہوں کہ میں نے ایسا کچھ نہیں کیا اور اللہ گواہ ہے کہ میں سچی (بے گناہ) ہوں تب بھی مجھے آپ کے سامنے اس سے فائدہ حاصل نہیں ہوسکتا کیونکہ آپ ہی یہ بات کہنے والے ہیں اور آپ کے دلوں میں یہ بات بیٹھ گئی ہے اوراگر میں یہ کہہ دوں کہ میں نے ایسا کیاہے اور اللہ خوب جانتاہے کہ میں نے نہیں کیا، تو آپ ضرور کہیں گے کہ اس نے تو اعتراف جرم کرلیاہے، اور میں قسم اللہ کی ! اپنے اور آپ کے لیے اس سے زیادہ مناسب حال کوئی مثال نہیں پاتی (میں نے مثال دینے کے لیے) یعقوب علیہ السلام کانام ڈھونڈا اور یاد کیا، مگر میں اس پر قادر نہ ہوسکی، (مجھے ان کانام یاد نہ آسکا تو میں نے ابویوسف کہہ دیا) مگر یوسف علیہ السلام کے باپ کی مثال جب کہ انہوں نے { فَصَبْرٌ جَمِیلٌ وَاللَّہُ الْمُسْتَعَانُ عَلَی مَا تَصِفُونَ } کہا ۲؎ ۔ اسی وقت رسول اللہ ﷺ پر وحی نازل ہونے لگی تو ہم سب خاموش ہوگئے، پھر آپ پر سے وحی کے آثار ختم ہوئے تو میں نے آپ کے چہرے سے خوشی پھوٹتی ہوئی دیکھی ، آپ اپنی پیشانی سے پسینہ پونچھتے ہوئے فرمانے لگے : اے عائشہ! خوش ہوجاؤ اللہ نے تمہاری برأۃ میں آیت نازل فرمادی ہے، مجھے اس وقت سخت غصہ آیا جب میرے ماں باپ نے مجھ سے کہا: کھڑی ہوکر آپ کا شکریہ ادا کر، میں نے کہا: نہیں، قسم اللہ کی ! میں آپ کا شکریہ اداکرنے کے لیے کھڑی نہ ہوں گی،نہ میں ان کی تعریف کروں گی اور نہ آپ دونوں کی، نہ میں ان کی احسان مند ہوں گی اور نہ آپ دونوں کا بلکہ میں اس اللہ کا احسان منداور شکر گزار ہوں گی جس نے میری برأۃ میں آیت نازل فرمائی، آپ لوگوں نے تو میری غیبت وتہمت سنی، لیکن اس پر تردید وانکار نہ کیا، اورنہ اسے روک دینے اور بدل دینے کی کوشش کی، عائشہ کہاکرتی تھیں: رہی زینب بن حجش تو اللہ نے انہیں ان کی نیکی ودینداری کی وجہ سے بچالیا، انہوں نے اس قضیہ میں جب بھی کہا، اچھی وبھلی بات ہی کہی، البتہ ان کی بہن حمنہ (شریک بہتان ہوکر) ہلاک ہونے والوں کے ساتھ ہلاک ہوگئی، اور جو لوگ اس بہتان بازی اور پروپیگنڈے میں لگے ہوئے تھے وہ مسطح، حسان بن ثابت اور منافق عبداللہ بن اُبی بن سلول تھے، اور یہی منافق (فتنہ پردازوں کا سردار وسرغنہ) ہی اس معاملہ میں اپنی سیاست چلاتا اور اپنے ہم خیال لوگوں کو یکجا رکھتا تھا، یہی وہ شخص تھا اور اس کے ساتھ حمنہ بھی تھی، جو اس فتنہ انگیزی میں پیش پیش تھی، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے قسم کھالی کہ اب وہ (اس احسان فراموش وبدگو) مسطح کو کبھی کوئی فائدہ نہ پہنچائیں گے، اس پر آیت { وَلا یَأْتَلِ أُولُوا الْفَضْلِ مِنْکُمْ وَالسَّعَۃِ } ۳؎ نازل ہوئی، اس سے یہاں مراد ابوبکر ہیں،{أَنْ یُؤْتُوا أُولِی الْقُرْبَی وَالْمَسَاکِینَ وَالْمُہَاجِرِینَ فِی سَبِیلِ اللَّہِ} ۴؎ اس سے اشارہ مسطح کی طرف ہے۔{ أَلاَ تُحِبُّونَ أَنْ یَغْفِرَ اللَّہُ لَکُمْ وَاللَّہُ غَفُورٌ رَحِیمٌ } ۵؎ (یہ آیت سن کر) ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: کیوں نہیں، قسم اللہ کی ! ہمارے رب ! ہم پسند کرتے ہیں کہ تو ہمیں بخش دے، پھر مسطح کو دینے لگے جو پہلے دیتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث ہشام بن عروہ کی روایت سے حسن صحیح غریب ہے،۲- اس حدیث کو یونس بن یزید، معمر اور کئی دوسرے لوگوں نے عروہ بن زبیر ، سعید بن مسیب ، علقمہ بن وقاص لیثی اور عبید اللہ بن عبداللہ سے اور ان سبھوں نے عائشہ سے روایت کی ہے، یہ حدیث ہشام بن عروہ کی حدیث سے لمبی بھی ہے اور مکمل بھی ہے۔