جامع الترمذي - حدیث 3149

أَبْوَابُ تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب وَمِنْ سُورَةِ الْكَهْفِ​ صحيح حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ قَالَ قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ إِنَّ نَوْفًا الْبِكَالِيَّ يَزْعُمُ أَنَّ مُوسَى صَاحِبَ بَنِي إِسْرَائِيلَ لَيْسَ بِمُوسَى صَاحِبِ الْخَضِرِ قَالَ كَذَبَ عَدُوُّ اللَّهِ سَمِعْتُ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ قَامَ مُوسَى خَطِيبًا فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ فَسُئِلَ أَيُّ النَّاسِ أَعْلَمُ فَقَالَ أَنَا أَعْلَمُ فَعَتَبَ اللَّهُ عَلَيْهِ إِذْ لَمْ يَرُدَّ الْعِلْمَ إِلَيْهِ فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَيْهِ أَنَّ عَبْدًا مِنْ عِبَادِي بِمَجْمَعِ الْبَحْرَيْنِ هُوَ أَعْلَمُ مِنْكَ قَالَ أَيْ رَبِّ فَكَيْفَ لِي بِهِ فَقَالَ لَهُ احْمِلْ حُوتًا فِي مِكْتَلٍ فَحَيْثُ تَفْقِدُ الْحُوتَ فَهُوَ ثَمَّ فَانْطَلَقَ وَانْطَلَقَ مَعَهُ فَتَاهُ وَهُوَ يُوشَعُ بْنُ نُونٍ فَجَعَلَ مُوسَى حُوتًا فِي مِكْتَلٍ فَانْطَلَقَ هُوَ وَفَتَاهُ يَمْشِيَانِ حَتَّى أَتَيَا الصَّخْرَةَ فَرَقَدَ مُوسَى وَفَتَاهُ فَاضْطَرَبَ الْحُوتُ فِي الْمِكْتَلِ حَتَّى خَرَجَ مِنْ الْمِكْتَلِ فَسَقَطَ فِي الْبَحْرِ قَالَ وَأَمْسَكَ اللَّهُ عَنْهُ جِرْيَةَ الْمَاءِ حَتَّى كَانَ مِثْلَ الطَّاقِ وَكَانَ لِلْحُوتِ سَرَبًا وَكَانَ لِمُوسَى وَلِفَتَاهُ عَجَبًا فَانْطَلَقَا بَقِيَّةَ يَوْمِهِمَا وَلَيْلَتِهِمَا وَنُسِّيَ صَاحِبُ مُوسَى أَنْ يُخْبِرَهُ فَلَمَّا أَصْبَحَ مُوسَى قَالَ لِفَتَاهُ آتِنَا غَدَاءَنَا لَقَدْ لَقِينَا مِنْ سَفَرِنَا هَذَا نَصَبًا قَالَ وَلَمْ يَنْصَبْ حَتَّى جَاوَزَ الْمَكَانَ الَّذِي أُمِرَ بِهِ قَالَ أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَى الصَّخْرَةِ فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَمَا أَنْسَانِيهُ إِلَّا الشَّيْطَانُ أَنْ أَذْكُرَهُ وَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ عَجَبًا قَالَ مُوسَى ذَلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِ فَارْتَدَّا عَلَى آثَارِهِمَا قَصَصًا قَالَ يَقُصَّانِ آثَارَهُمَا قَالَ سُفْيَانُ يَزْعُمُ نَاسٌ أَنَّ تِلْكَ الصَّخْرَةَ عِنْدَهَا عَيْنُ الْحَيَاةِ وَلَا يُصِيبُ مَاؤُهَا مَيِّتًا إِلَّا عَاشَ قَالَ وَكَانَ الْحُوتُ قَدْ أُكِلَ مِنْهُ فَلَمَّا قُطِرَ عَلَيْهِ الْمَاءُ عَاشَ قَالَ فَقَصَّا آثَارَهُمَا حَتَّى أَتَيَا الصَّخْرَةَ فَرَأَى رَجُلًا مُسَجًّى عَلَيْهِ بِثَوْبٍ فَسَلَّمَ عَلَيْهِ مُوسَى فَقَالَ أَنَّى بِأَرْضِكَ السَّلَامُ قَالَ أَنَا مُوسَى قَالَ مُوسَى بَنِي إِسْرَائِيلَ قَالَ نَعَمْ قَالَ يَا مُوسَى إِنَّكَ عَلَى عِلْمٍ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ عَلَّمَكَهُ لَا أَعْلَمُهُ وَأَنَا عَلَى عِلْمٍ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ عَلَّمَنِيهِ لَا تَعْلَمُهُ فَقَالَ مُوسَى هَلْ أَتَّبِعُكَ عَلَى أَنْ تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا قَالَ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا وَكَيْفَ تَصْبِرُ عَلَى مَا لَمْ تُحِطْ بِهِ خُبْرًا قَالَ سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللَّهُ صَابِرًا وَلَا أَعْصِي لَكَ أَمْرًا قَالَ لَهُ الْخَضِرُ فَإِنْ اتَّبَعْتَنِي فَلَا تَسْأَلْنِي عَنْ شَيْءٍ حَتَّى أُحْدِثَ لَكَ مِنْهُ ذِكْرًا قَالَ نَعَمْ فَانْطَلَقَ الْخَضِرُ وَمُوسَى يَمْشِيَانِ عَلَى سَاحِلِ الْبَحْرِ فَمَرَّتْ بِهِمَا سَفِينَةٌ فَكَلَّمَاهُمْ أَنْ يَحْمِلُوهُمَا فَعَرَفُوا الْخَضِرَ فَحَمَلُوهُمَا بِغَيْرِ نَوْلٍ فَعَمَدَ الْخَضِرُ إِلَى لَوْحٍ مِنْ أَلْوَاحِ السَّفِينَةِ فَنَزَعَهُ فَقَالَ لَهُ مُوسَى قَوْمٌ حَمَلُونَا بِغَيْرِ نَوْلٍ عَمَدْتَ إِلَى سَفِينَتِهِمْ فَخَرَقْتَهَا لِتُغْرِقَ أَهْلَهَا لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا إِمْرًا قَالَ أَلَمْ أَقُلْ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا قَالَ لَا تُؤَاخِذْنِي بِمَا نَسِيتُ وَلَا تُرْهِقْنِي مِنْ أَمْرِي عُسْرًا ثُمَّ خَرَجَا مِنْ السَّفِينَةِ فَبَيْنَمَا هُمَا يَمْشِيَانِ عَلَى السَّاحِلِ وَإِذَا غُلَامٌ يَلْعَبُ مَعَ الْغِلْمَانِ فَأَخَذَ الْخَضِرُ بِرَأْسِهِ فَاقْتَلَعَهُ بِيَدِهِ فَقَتَلَهُ قَالَ لَهُ مُوسَى أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَكِيَّةً بِغَيْرِ نَفْسٍ لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا نُكْرًا قَالَ أَلَمْ أَقُلْ لَكَ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا قَالَ وَهَذِهِ أَشَدُّ مِنْ الْأُولَى قَالَ إِنْ سَأَلْتُكَ عَنْ شَيْءٍ بَعْدَهَا فَلَا تُصَاحِبْنِي قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَدُنِّي عُذْرًا فَانْطَلَقَا حَتَّى إِذَا أَتَيَا أَهْلَ قَرْيَةٍ اسْتَطْعَمَا أَهْلَهَا فَأَبَوْا أَنْ يُضَيِّفُوهُمَا فَوَجَدَا فِيهَا جِدَارًا يُرِيدُ أَنْ يَنْقَضَّ يَقُولُ مَائِلٌ فَقَالَ الْخَضِرُ بِيَدِهِ هَكَذَا فَأَقَامَهُ فَقَالَ لَهُ مُوسَى قَوْمٌ أَتَيْنَاهُمْ فَلَمْ يُضَيِّفُونَا وَلَمْ يُطْعِمُونَا لَوْ شِئْتَ لَاتَّخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا قَالَ هَذَا فِرَاقُ بَيْنِي وَبَيْنِكَ سَأُنَبِّئُكَ بِتَأْوِيلِ مَا لَمْ تَسْتَطِعْ عَلَيْهِ صَبْرًا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْحَمُ اللَّهُ مُوسَى لَوَدِدْنَا أَنَّهُ كَانَ صَبَرَ حَتَّى يَقُصَّ عَلَيْنَا مِنْ أَخْبَارِهِمَا قَالَ وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْأُولَى كَانَتْ مِنْ مُوسَى نِسْيَانٌ قَالَ وَجَاءَ عُصْفُورٌ حَتَّى وَقَعَ عَلَى حَرْفِ السَّفِينَةِ ثُمَّ نَقَرَ فِي الْبَحْرِ فَقَالَ لَهُ الْخَضِرُ مَا نَقَصَ عِلْمِي وَعِلْمُكَ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ إِلَّا مِثْلُ مَا نَقَصَ هَذَا الْعُصْفُورُ مِنْ الْبَحْرِ قَالَ سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ وَكَانَ يَعْنِي ابْنَ عَبَّاسٍ يَقْرَأُ وَكَانَ أَمَامَهُمْ مَلِكٌ يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ صَالِحَةٍ غَصْبًا وَكَانَ يَقْرَأُ وَأَمَّا الْغُلَامُ فَكَانَ كَافِرًا قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَرَوَاهُ الزُّهْرِيُّ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ رَوَاهُ أَبُو إِسْحَقَ الْهَمْدَانِيُّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَبُو عِيسَى سَمِعْت أَبَا مُزَاحِمٍ السَّمَرْقَنْدِيَّ يَقُولُ سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ الْمَدِينِيِّ يَقُولُ حَجَجْتُ حَجَّةً وَلَيْسَ لِي هِمَّةٌ إِلَّا أَنْ أَسْمَعَ مِنْ سُفْيَانَ يَذْكُرُ فِي هَذَا الْحَدِيثِ الْخَبَرَ حَتَّى سَمِعْتُهُ يَقُولُ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ وَقَدْ كُنْتُ سَمِعْتُ هَذَا مِنْ سُفْيَانَ مِنْ قَبْلِ ذَلِكَ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ الْخَبَرَ

ترجمہ جامع ترمذی - حدیث 3149

کتاب: قرآن کریم کی تفسیر کے بیان میں سورہ کہف سے بعض آیات کی تفسیر​ سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا کہ نوف بکالی کہتاہے کہ نبی اسرائیل والے موسیٰ خضر والے موسیٰ علیہماالسلام نہیں ہیں، ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: اللہ کے دشمن نے جھوٹ کہا ، میں نے ابی بن کعب کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے :’’ موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل میں ایک دن تقریر کی، ان سے پوچھا گیا (اس وقت) لوگوں میں سب سے زیادہ علم والاکون ہے؟ کہا: میں سب سے زیادہ علم والاہوں، یہ بات اللہ کو ناگوار ہوئی کہ انہوں نے اللہ اعلم (اللہ بہتر جانتا ہے ) نہیں کہا، اللہ نے ان کی سرزنش کی اور ان کی طرف وحی کی کہ میرے بندوں میں سے ایک بندہ مجمع البحرین (دوسمندروں کے سنگم) کے مقام پر ہے ، وہ تم سے بڑا عالم ہے، موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا : اے میرے رب ! میری ان سے ملاقات کی صورت کیا ہوسکتی ہے؟ اللہ نے کہا: زنبیل (تھیلے)میں ایک مچھلی رکھ لو پھر جہاں مچھلی غائب ہوجائے وہیں میرا وہ بندہ تمہیں ملے گا، موسیٰ چل پڑے ان کے ساتھ ان کے خادم یوشع بن نون بھی تھے، موسیٰ نے ایک مچھلی ٹوکری میں رکھ لی ، دونوں چلتے چلتے صخرہ (چٹان) کے پاس پہنچے ، اور وہاں سوگئے،( سونے کے دوران) مچھلی تڑپی ، تھیلے سے نکل کر سمندر میں جاگری، ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں : مچھلی کے گرتے ہی اللہ تعالیٰ نے پانی کے بہاو ٔ کو روک دیا، یہاں تک کہ ایک محراب کی صورت بن گئی اور مچھلی کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ آنے جانے کا راستہ بن گیا،موسیٰ اور ان کے خادم کے لیے یہ حیرت انگیز چیز تھی، وہ نیند سے بیدار ہوکر باقی دن ورات چلتے رہے، موسیٰ کا رفیق سفر انہیں یہ بتانا بھول گیا کہ فلاں مقام پر مچھلی تھیلے سے نکل کرسمندر میں جاچکی ہے، صبح ہوئی توموسیٰ علیہ السلام نے اپنے خادم سے کہا: بھئی ہمارا ناشتہ لاؤ، ہم تو اس سفر میں بہت تھک چکے ہیں، ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: موسیٰ علیہ السلام کو تھکان اس جگہ سے آگے بڑھ جانے کے بعد ہی لاحق ہوئی جس جگہ اللہ نے انہیں پہنچنے کا حکم دیاتھا، غلام نے کہا: بھلا دیکھئے تو سہی (کیسی عجیب بات ہوئی) جب ہم چٹان پر فروکش ہوئے تھے ( کچھ دیر آرام کے لیے) تو میں آپ سے مچھلی کا ذکر کرنا بھول ہی گیا، اور شیطان کے سوا مجھے کسی نے بھی اس کے یاددلانیسے غافل نہیں کیا ہے، وہ تو حیرت انگیز طریقے سے سمندر میں چلی گئی، موسیٰ علیہ السلام نے کہا: یہی تووہ جگہ تھی جس کی تلاش میں ہم نکلے تھے، پھر وہ اپنے نشان قدم دیکھتے ہوئے پلٹے، وہ اپنے قدموں کے نشان ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر چل رہے تھے (تاکہ صحیح جگہ پر پہنچ جائیں) (سفیان (راوی) کہتے ہیں:کچھ لوگ سمجھتے ہیں اس چٹان کے قریب چشمہ حیات ہے، جس کسی مردے کو اس کا پانی چھوجائے وہ زندہ ہوجاتاہے)، مچھلی کچھ کھائی جاچکی تھی۔مگر جب پانی کے قطرے اس پر پڑے تو وہ زندہ ہوگئی، دونوں اپنے نشانات قدم دیکھ کر چلے یہاں تک کہ چٹان کے پاس پہنچ گئے وہاں سر ڈھانپے ہوئے ایک شخص کو دیکھا، موسیٰ علیہ السلام نے انہیں سلام عرض کیا،انہوں نے کہا : تمہارے اس ملک میں سلام کہاں ہے؟ انہوں نے کہا: میں موسیٰ ہوں، (اور میری شریعت میں سلام ہے) انہوں نے پوچھا:بنی اسرائیل والے موسیٰ؟ کہا: ہاں ، انہوں نے کہا : اے موسیٰ اللہ کے (بے شماراور بے انتہاء) علوم میں سے تمہارے پاس ایک علم ہے، اللہ نے تمہیں سکھایا ہے جسے میں نہیں جانتا، اور مجھے بھی اللہ کے علوم میں سے ایک علم حاصل ہے، اللہ نے مجھے وہ علم سکھایا ہے، جسے تم نہیں جانتے۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا: میں آپ کے ساتھ ساتھ رہوں تو کیا آپ مجھے اللہ نے آپ کو رشدوہدایت کی جو باتیں سکھائیں ہیں انہیں سکھادیں گے؟ انہوں نے کہا: آپ میرے پاس ٹک نہیں سکتے، اور جس بات کا آپ کو علم نہیں آپ( اسے بظاہر خلاف شرع دیکھ کر) کیسے خاموش رہ سکتے ہیں؟ انہوں نے کہا:نہیں،میں ان شاء اللہ جموں(اور ٹکوں) گا اور کسی معاملے میں آپ کی نافرمانی (اورمخالفت) نہیں کروں گا۔ ان سے خضر (علیہ السلام) نے کہا:اگر آپ میرے ساتھ رہنا ہی چاہتے ہیں تو (دھیان رہے) کسی چیز کے بارے میں بھی مجھ سے مت پوچھیں اور حجت بازی نہ کریں جب تک کہ میں خود ہی آپ کو اس کے بارے میں بتانہ دوں، موسیٰ علیہ السلام نے کہا: ہاں ہاں، (بالکل ایسا ہی ہوگا) پھرخضر وموسیٰ چلے، دونوں سمندر کے ساحل سے لگ کرچلے جارہے تھے کہ ان کے قریب سے ایک کشتی گزری ، ان دونوں نے کشتی والوں سے بات کی کہ ہمیں بھی کشتی پرسوار کرلو، (باتوں ہی باتوں میں) انہوں نے خضر کو پہچان لیا، ان دونوں کو کشتی پر چڑھالیا، اور ان سے کرایہ نہ لیا، مگر خضر علیہ السلام کشتی کے تختوں میں سے ایک تختے کی طرف بڑھے اور اسے اکھاڑ دیا، (یہ دیکھ کر موسیٰ سے صبر نہ ہوا) بول پڑے ، ایک تویہ (کشتی والے شریف )لوگ ہیں کہ انہوں نے بغیر کرایہ بھاڑا لیے ہمیں کشتی پر چڑھا لیا اور ایک آپ ہیں کہ آپ نے ان کی کشتی کی طرف بڑھ کر اسے توڑ دیا تاکہ انہیں ڈبودیں، یہ تو آپ نے بڑا برا کام کیا، انہوں نے کہا: کیا میں آپ سے پہلے ہی نہیں کہہ چکاہوں کہ آپ میرے ساتھ رہ کر صبر نہیں کرسکتے؟ (خاموش نہیں رہ سکتے) موسی علیہ السلام نے کہا: آپ اس پر میری گرفت نہ کریں میں بھول گیا تھا( کہ میں نے آپ سے خاموش رہنے کا وعدہ کررکھاہے) اور آپ میرے کام ومعاملے میں دشواریاں کھڑی نہ کریں، پھروہ دونوں کشتی سے اتر کر ساحل کے کنارے کنارے چلے جارہے تھے کہ اچانک ایک لڑکا انہیں اور لڑکوں کے ساتھ کھیلتا ہوا ملا، خضر نے اس کا سرپکڑ ا اور اپنے ہاتھ سے اس کی کھوپڑی سر سے اتار کر اسے مارڈالا، (موسیٰ سے پھر رہانہ گیا ) موسیٰ نے کہا: آپ نے بغیر کسی قصاص کے ایک اچھی بھلی جان لے لی، یہ تو آپ نے بڑی گھناونی حرکت کی ہے۔ انہوں نے کہا: میں تو آپ سے پہلے ہی کہہ چکاہوں کہ آپ میرے ساتھ رہ کر صبر نہ کرسکیں گے۔ (کچھ نہ کچھ ضرور بول بیٹھیں گے راوی) کہتے ہیں اور یہ تو پہلے سے بھی زیادہ سخت معاملہ تھا، (اس میں وہ کیسے خاموش رہتے) موسیٰ علیہ السلام نے کہا: (یہ بھول بھی ہوہی گئی) اب اگر میں ا س کے بعد کسی چیز کے بارے میں کچھ پوچھ بیٹھوں تو مجھے اپنے ساتھ نہ رکھئے ، میرے سلسلے میں آپ عذر کو پہنچے ہوئے ہوں گے، پھر وہ دونوں آگے بڑھے، ایک گاؤں میں پہنچ کر گاؤں والوں سے کہا: آپ لوگ ہماری ضیافت کریں مگر گاؤں والوں نے انہیں اپنا مہمان بنانے سے انکار کردیا، وہاں انہیں ایک دیوار دکھائی دی جو گری پڑتی تھی، راوی کہتے ہیں: جھکی ہوئی تھی تو خضر نے ہاتھ (بڑھاکر) دیوار سیدھی کھڑی کردی۔ موسیٰ علیہ السلام نے ان سے کہا: یہ تو (ایسی گئی گذری ) قوم ہے کہ ہم ان کے پاس آئے ، مگرانہوں نے ہماری ضیافت تک نہ کی، ہمیں کھلایا پلایا تک نہیں، آپ چاہتے تو ان سے دیوار سیدھی کھڑی کردینے کی اجرت لے لیتے۔ خضر علیہ السلام نے کہا: اب آگئی ہے ہماری تمہاری جدائی کی گھڑی، جن باتوں پرتم صبر نہ سکے میں تمہیں ان کی حقیقت بتائے دیتاہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ اللہ موسیٰ پر رحم فرمائے ، ہمارے لیے تو یہ پسند ہوتاکہ وہ صبر کرتے تو ہم ان دونوں کی (عجیب وغریب) خبریں سنتے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ پہلی بار تو موسیٰ علیہ السلام سے بھول ہوئی تھی، آپ نے فرمایا:’’ (اسی موقع پر) ایک گوریا آئی اورکشتی کے ایک کنارے بیٹھ گئی پھرسمندر سے اپنی چونچ مارکر پانی نکالا ، خضر نے موسیٰ علیہ السلام کو متوجہ کرکے کہا: اس چڑیاکے سمندر میں چونچ مارنے سے جو کمی ہوئی ہے وہی حیثیت اللہ کے علم کے آگے ہمارے اور تمہارے علم کی ہے، ( اس لیے متکبر انہ جملہ کہنے کے بجائے اللہ اعلم کہنا زیادہ بہتر ہوتا)۔ سعید بن جبیر کہتے ہیں: ابن عباس ( وَکَانَ أَمَامَہُمْ مَلِکٌ یَأْخُذُ کُلَّ سَفِینَۃٍ صَالِحَۃٍ غَصْبًا {وَأَمَّا الْغُلاَمُ فَکَانَ کَافِرًا } ۲؎ پڑھاکرتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس حدیث کو زہری نے عبید اللہ بن عتبہ سے عبیداللہ نے ابن عباس سے اورابن عباس نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہم کے واسطہ سے ،نبی اکرمﷺسے روایت کیا ہے۔ اور اس حدیث کو ابواسحاق ہمدانی نے بھی سعید بن جبیر سے ،سعید نے ابن عباس سے اورابن عباس نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہم کے واسطہ سے نبی اکرمﷺسے روایت کیا ہے،۳- میں نے ابومزاحم سمر قندی کوکہتے ہوئے سنا ہے کہ میں نے علی ابن مدینی کوسنا وہ کہتے تھے : میں نے حج کیا، اور میرا حج سے مقصد صر ف یہ تھا کہ میں سفیان سے خودسن لوں کہ وہ اس حدیث میں خبر یعنی لفظ ’’ اخبرنا ‘‘ استعمال کرتے ہیں (یا نہیں) چنانچہ میں نے سنا ، انہوں نے حدثنا عمرو بن دینار …‘‘ کا لفظ استعمال کیا۔ اور میں اس سے پہلے بھی سفیان سے یہ سن چکاتھا اور اس میں خبر (یعنی اخبرنا) کا ذکر نہیں تھا۔