أَبْوَابُ الصَّلاَةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ فِي تَرْكِ الْقِرَائَةِ خَلْفَ الإِمَامِ إِذَا جَهَرَ الإِمَامُ بِالْقِرَائَةِ صحيح حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مُوسَى الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنٌ حَدَّثَنَا مَالِكٌ عَنْ أَبِي نُعَيْمٍ وَهْبِ بْنِ كَيْسَانَ أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يَقُولُ مَنْ صَلَّى رَكْعَةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَلَمْ يُصَلِّ إِلَّا أَنْ يَكُونَ وَرَاءَ الْإِمَامِ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ
کتاب: صلاۃ کے احکام ومسائل
امام جہرسے قرأت کرے تو اس کے پیچھے قرأت نہ کرنے کا بیان
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں : جس نے کوئی رکعت ایسی پڑھی جس میں سورئہ فاتحہ نہیں پڑھی تو اس نے صلاۃ ہی نہیں پڑھی، سوائے اس کے کہ وہ امام کے پیچھے ہو ۱ ؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تشریح :
۱ ؎ : اس اثرکا پہلی والی صحیح احادیث کے ساتھ کوئی معارضہ نہیں ، امام بیہقی نے 'کتاب القراء ۃ' (ص: ۱۱۲) میں جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہما کا یہ اثرنقل کرنے کے بعد لکھاہے: اس اثر میں صلاۃ میں سورۃ الفاتحۃ کی تعیین قرأت کے لیے دلیل بھی ہے اور یہ کہ ان حضرات کے خلاف جو الفاتحۃ کی نہ تعیین کے قائل ہیں اور نہ ہی وہ آخری دورکعات میں اس سورہ کی قرأت کے وُجوب کے قائل ہیں ، صلاۃ کی تمام رکعتوں کی ہررکعت میں سورۃ الفاتحۃ کی قرأت کے واجب ہو نے کی بھی دلیل ہے ، اور جہاں تک جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہما کی : 'إلا وَرَاءَ الإمَامِ 'والی بات کا تعلق ہے تو :
(۱) احتمال ہے کہ یہ آپ رضی اللہ عنہ کاامام کے پیچھے اُس صلاۃ میں سورۃ الفاتحۃ کے ترک کردینے کے جواز کا مسلک ہو کہ جس میں امام سورۃ الفاتحۃ جہراً پڑھتاہے۔
(۲) یہ بھی احتمال ہے کہ : اس سے مراد وہ رکعت ہوکہ کہ جس میں مقتدی امام کو رکوع کی حالت میں پائے اوراس کے ساتھ مل جائے تواُس کی یہ رکعت ہوجائے گی ، اس تاویل کو اسحاق بن ابراہیم الحنظلی جیسے علماء نے اختیار کیا ہے ۔
(۳) ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں یزید الفقیر کی روایت سے ایک اثردرج کیا ہے کہ جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہما چاررکعات والی صلاۃ پہلی دورکعات میں سورۃ الفاتحۃ اور اس کے ساتھ کوئی دوسری سورت جب کہ آخری دورکعت میں صرف سورۃ الفاتحۃ پڑھاکرتے تھے اور فرمایا کہ ہم یہ گفتگوکیا کرتے تھے کہ ہررکعت میں سورۃ الفاتحۃ کے ساتھ قرأت سے کچھ اورپڑھے بغیرصلاۃ نہیں ہوتی ، (تو جابر رضی اللہ عنہ کے عمل سے لوگوں کے لیے وضاحت ہوگئی )اوریہ کہ یہ لفظ عام ہے : اکیلے صلاۃ پڑھنے والے کے لیے بھی مقتدی کے بھی اور امام کے لیے بھی ۔
(۴) عبیداللہ بن مُقسم کی روایت ہے کہ جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہما فرماتے تھے: صلاۃ میں قرأت کا سنت عمل یہ ہے کہ مصلی پہلی رکعت میں سورۃ الفاتحۃ اور اس کے ساتھ کوئی دوسری سورت بھی پڑھے جب کہ آخری دورکعتوں میں صرف سورۃ الفاتحۃ پڑھ لے...اور اصول یہ ہے کہ صحابی جب سنت کا کلمہ استعمال کرے اور کہے : 'كنا نتَحدث' تو محدثین کرام اسے مرفوع احادیث میں شمارکرتے ہیں ۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھئے : تحفۃ الأحوذی ۱/۲۶۱)
نوٹ:(واضح رہے یہ جابر رضی اللہ عنہ کا قول ہے ، اور اس کو اصطلاح میں موقوف کہتے ہیں)
۱ ؎ : اس اثرکا پہلی والی صحیح احادیث کے ساتھ کوئی معارضہ نہیں ، امام بیہقی نے 'کتاب القراء ۃ' (ص: ۱۱۲) میں جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہما کا یہ اثرنقل کرنے کے بعد لکھاہے: اس اثر میں صلاۃ میں سورۃ الفاتحۃ کی تعیین قرأت کے لیے دلیل بھی ہے اور یہ کہ ان حضرات کے خلاف جو الفاتحۃ کی نہ تعیین کے قائل ہیں اور نہ ہی وہ آخری دورکعات میں اس سورہ کی قرأت کے وُجوب کے قائل ہیں ، صلاۃ کی تمام رکعتوں کی ہررکعت میں سورۃ الفاتحۃ کی قرأت کے واجب ہو نے کی بھی دلیل ہے ، اور جہاں تک جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہما کی : 'إلا وَرَاءَ الإمَامِ 'والی بات کا تعلق ہے تو :
(۱) احتمال ہے کہ یہ آپ رضی اللہ عنہ کاامام کے پیچھے اُس صلاۃ میں سورۃ الفاتحۃ کے ترک کردینے کے جواز کا مسلک ہو کہ جس میں امام سورۃ الفاتحۃ جہراً پڑھتاہے۔
(۲) یہ بھی احتمال ہے کہ : اس سے مراد وہ رکعت ہوکہ کہ جس میں مقتدی امام کو رکوع کی حالت میں پائے اوراس کے ساتھ مل جائے تواُس کی یہ رکعت ہوجائے گی ، اس تاویل کو اسحاق بن ابراہیم الحنظلی جیسے علماء نے اختیار کیا ہے ۔
(۳) ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں یزید الفقیر کی روایت سے ایک اثردرج کیا ہے کہ جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہما چاررکعات والی صلاۃ پہلی دورکعات میں سورۃ الفاتحۃ اور اس کے ساتھ کوئی دوسری سورت جب کہ آخری دورکعت میں صرف سورۃ الفاتحۃ پڑھاکرتے تھے اور فرمایا کہ ہم یہ گفتگوکیا کرتے تھے کہ ہررکعت میں سورۃ الفاتحۃ کے ساتھ قرأت سے کچھ اورپڑھے بغیرصلاۃ نہیں ہوتی ، (تو جابر رضی اللہ عنہ کے عمل سے لوگوں کے لیے وضاحت ہوگئی )اوریہ کہ یہ لفظ عام ہے : اکیلے صلاۃ پڑھنے والے کے لیے بھی مقتدی کے بھی اور امام کے لیے بھی ۔
(۴) عبیداللہ بن مُقسم کی روایت ہے کہ جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہما فرماتے تھے: صلاۃ میں قرأت کا سنت عمل یہ ہے کہ مصلی پہلی رکعت میں سورۃ الفاتحۃ اور اس کے ساتھ کوئی دوسری سورت بھی پڑھے جب کہ آخری دورکعتوں میں صرف سورۃ الفاتحۃ پڑھ لے...اور اصول یہ ہے کہ صحابی جب سنت کا کلمہ استعمال کرے اور کہے : 'كنا نتَحدث' تو محدثین کرام اسے مرفوع احادیث میں شمارکرتے ہیں ۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھئے : تحفۃ الأحوذی ۱/۲۶۱)
نوٹ:(واضح رہے یہ جابر رضی اللہ عنہ کا قول ہے ، اور اس کو اصطلاح میں موقوف کہتے ہیں)