أَبْوَابُ الصَّلاَةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ فِي تَرْكِ الْقِرَائَةِ خَلْفَ الإِمَامِ إِذَا جَهَرَ الإِمَامُ بِالْقِرَائَةِ صحيح حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنٌ حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ ابْنِ أُكَيْمَةَ اللَّيْثِيِّ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْصَرَفَ مِنْ صَلَاةٍ جَهَرَ فِيهَا بِالْقِرَاءَةِ فَقَالَ هَلْ قَرَأَ مَعِي أَحَدٌ مِنْكُمْ آنِفًا فَقَالَ رَجُلٌ نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ إِنِّي أَقُولُ مَالِي أُنَازَعُ الْقُرْآنَ قَالَ فَانْتَهَى النَّاسُ عَنْ الْقِرَاءَةِ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا جَهَرَ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الصَّلَوَاتِ بِالْقِرَاءَةِ حِينَ سَمِعُوا ذَلِكَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَابْنُ أُكَيْمَةَ اللَّيْثِيُّ اسْمُهُ عُمَارَةُ وَيُقَالُ عَمْرُو بْنُ أُكَيْمَةَ وَرَوَى بَعْضُ أَصْحَابِ الزُّهْرِيِّ هَذَا الْحَدِيثَ وَذَكَرُوا هَذَا الْحَرْفَ قَالَ قَالَ الزُّهْرِيُّ فَانْتَهَى النَّاسُ عَنْ الْقِرَاءَةِ حِينَ سَمِعُوا ذَلِكَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَيْسَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ مَا يَدْخُلُ عَلَى مَنْ رَأَى الْقِرَاءَةَ خَلْفَ الْإِمَامِ لِأَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ هُوَ الَّذِي رَوَى عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذَا الْحَدِيثَ وَرَوَى أَبُو هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ مَنْ صَلَّى صَلَاةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَهِيَ خِدَاجٌ فَهِيَ خِدَاجٌ غَيْرُ تَمَامٍ فَقَالَ لَهُ حَامِلُ الْحَدِيثِ إِنِّي أَكُونُ أَحْيَانًا وَرَاءَ الْإِمَامِ قَالَ اقْرَأْ بِهَا فِي نَفْسِكَ وَرَوَى أَبُو عُثْمَانَ النَّهْدِيُّ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ أَمَرَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أُنَادِيَ أَنْ لَا صَلَاةَ إِلَّا بِقِرَاءَةِ فَاتِحَةِ الْكِتَابِ وَاخْتَارَ أَكْثَرُ أَصْحَابِ الْحَدِيثِ أَنْ لَا يَقْرَأَ الرَّجُلُ إِذَا جَهَرَ الْإِمَامُ بِالْقِرَاءَةِ وَقَالُوا يَتَتَبَّعُ سَكَتَاتِ الْإِمَامِ وَقَدْ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ فَرَأَى أَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ الْقِرَاءَةَ خَلْفَ الْإِمَامِ وَبِهِ يَقُولُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ وَرُوِيَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ أَنَّهُ قَالَ أَنَا أَقْرَأُ خَلْفَ الْإِمَامِ وَالنَّاسُ يَقْرَءُونَ إِلَّا قَوْمًا مِنْ الْكُوفِيِّينَ وَأَرَى أَنَّ مَنْ لَمْ يَقْرَأْ صَلَاتُهُ جَائِزَةٌ وَشَدَّدَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي تَرْكِ قِرَاءَةِ فَاتِحَةِ الْكِتَابِ وَإِنْ كَانَ خَلْفَ الْإِمَامِ فَقَالُوا لَا تُجْزِئُ صَلَاةٌ إِلَّا بِقِرَاءَةِ فَاتِحَةِ الْكِتَابِ وَحْدَهُ كَانَ أَوْ خَلْفَ الْإِمَامِ وَذَهَبُوا إِلَى مَا رَوَى عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَرَأَ عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ بَعْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَلْفَ الْإِمَامِ وَتَأَوَّلَ قَوْلَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا صَلَاةَ إِلَّا بِقِرَاءَةِ فَاتِحَةِ الْكِتَابِ وَبِهِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ وَإِسْحَقُ وَغَيْرُهُمَا وَأَمَّا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ فَقَالَ مَعْنَى قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ إِذَا كَانَ وَحْدَهُ وَاحْتَجَّ بِحَدِيثِ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ حَيْثُ قَالَ مَنْ صَلَّى رَكْعَةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَلَمْ يُصَلِّ إِلَّا أَنْ يَكُونَ وَرَاءَ الْإِمَامِ قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ فَهَذَا رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَأَوَّلَ قَوْلَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ أَنَّ هَذَا إِذَا كَانَ وَحْدَهُ وَاخْتَارَ أَحْمَدُ مَعَ هَذَا الْقِرَاءَةَ خَلْفَ الْإِمَامِ وَأَنْ لَا يَتْرُكَ الرَّجُلُ فَاتِحَةَ الْكِتَابِ وَإِنْ كَانَ خَلْفَ الْإِمَامِ
کتاب: صلاۃ کے احکام ومسائل
امام جہرسے قرأت کرے تو اس کے پیچھے قرأت نہ کرنے کا بیان
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے اس صلاۃ سے فارغ ہونے کے بعدجس میں آپ نے بلندآواز سے قرأت کی تھی تو فرمایا:' کیا تم میں سے ابھی کسی نے میرے ساتھ قرأت کی ہے ؟' ایک شخص نے عرض کیا: ہاں اللہ کے رسول ! (میں نے کی ہے)آپ نے فرمایا: 'تبھی تو میں یہ کہہ رہاتھا :آخرکیابات ہے کہ قرآن کی قرأت میں میری آواز سے آواز ٹکرائی جارہی ہے اورمجھ پر غالب ہونے کی کوشش کی جاری ہے' ، وہ(زہری) کہتے ہیں: توجب لوگوں نے رسول اللہﷺ سے یہ بات سنی تو لوگ رسول اللہﷺ کے ان صلاتوں میں قرأت کرنے سے رک گئے جن میں آپ بلند آواز سے قرأت کرتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے،۲- ابن اکیمہ لیثی کا نام عمارہ ہے انہیں عمروبن اکیمہ بھی کہاجاتا ہے ، زہری کے دیگرتلامذہ نے بھی یہ حدیث روایت کی ہے لیکن ان لوگوں نے اسے ان الفاظ کے ساتھ ذکرکیا ہے قَالَ الزُّہْرِیُّ فَانْتَہَی النَّاسُ عَنْ الْقِرَائَۃِ حِینَ سَمِعُوا ذَلِکَ مِنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ (زہری نے کہا کہ لوگ قرأت سے رک گئے جس وقت ان لوگوں نے اسے رسول اللہﷺ سے سنا) ۳- اس باب میں ابن مسعود، عمران بن حصین اورجابربن عبداللہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۴- اس حدیث میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے جو ان لوگوں کے لیے رکاوٹ کا سبب بنے جن کی رائے امام کے پیچھے بھی قرأت کی ہے، اس لیے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی ہیں جنہوں نے یہ حدیث روایت کی ہے اورانہوں نے ہی نبی اکرمﷺ سے یہ حدیث بھی روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا'جس نے کوئی صلاۃ پڑھی اوراس میں سورئہ فاتحہ نہیں پڑھی تووہ ناقص ہے، ناقص ہے، ناتمام ہے' تو ان سے ایک شخص نے جس نے ان سے یہ حدیث اخذکی تھی پوچھا کہ میں کبھی امام کے پیچھے ہوتاہوں (توکیا کروں؟) تو انہوں نے کہا: تم اِسے اپنے دل میں پڑھ لیا کر۔ابوعثمان نہدی سے روایت ہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ مجھے نبی اکرمﷺنے یہ حکم دیا کہ میں اعلان کر دوں کہ سورئہ فاتحہ کے بغیرصلاۃنہیں ہوتی، ۵- اکثرمحدّثین نے اس بات کو پسندکیا ہے کہ جب امام بلند آواز سے قرأت کرے تومقتدی قرأت نہ کرے، اورکہاہے کہ وہ امام کے سکتوں کا تتبع کرتا رہے، (یعنی وہ امام کے سکتوں کے درمیان پڑھ لیا کرے)،۶- امام کے پیچھے قرأت کے سلسلہ میں اہل علم کا اختلاف ہے، صحابہ وتابعین اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے اکثراہل علم امام کے پیچھے قرأت کے قائل ہیں، مالک بن انس،عبداللہ بن مبارک شافعی ،احمد اوراسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں،عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں کہ امام کے پیچھے قرأت کرتاہوں اور لوگ بھی کرتے ہیں سوائے کوفیوں میں سے چند لوگوں کے، اورمیراخیال ہے کہ جو نہ پڑھے اس کی بھی صلاۃ درست ہے،۷- اوراہل علم میں سے کچھ لوگوں نے اس سلسلہ میں سختی برتی ہے، ان لوگوں کا کہنا ہے کہ سورئہ فاتحہ کا چھوڑنا جائز نہیں اگرچہ وہ امام کے پیچھے ہو،یہ لوگ کہتے ہیں کہ بغیرسورئہ فاتحہ کے صلاۃ کفایت نہیں کرتی، یہ لوگ اس حدیث کی طرف گئے ہیں جسے عبادہ بن صامت نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے۔ اورخود عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے بھی نبی اکرمﷺ کے بعدامام کے پیچھے قرأت کی ہے، ان کا عمل نبی اکرمﷺ کے اسی قول پررہاہے کہ سورئہ فاتحہ کے بغیر صلاۃ نہیں،یہی شافعی اور اسحاق بن راہویہ وغیرہ کا بھی قول ہے،۸- رہے احمدبن حنبل تو وہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے قول' سورئہ فاتحہ کے بغیرصلاۃنہیں ہوتی' کا مطلب یہ ہے کہ جب وہ اکیلے صلاۃپڑھ ہا ہوتب سورئہ فاتحہ کے بغیر صلاۃ نہیں ہوگی۔ انہوں نے جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہما کی حدیث سے یہ استدلال کیا ہے جس میں ہے کہ' جس نے کوئی رکعت پڑھی اوراس میں سورئہ فاتحہ نہیں پڑھی تو اس کی صلاۃ نہیں ہوئی سوائے اس کے کہ وہ امام کے پیچھے ہو ۱؎ ' ۔ احمدبن حنبل کہتے ہیں کہ یہ نبی اکرمﷺ کے صحابہ میں ایک شخص ہیں اورانہوں نے نبی اکرمﷺ کے قول 'سورئہ فاتحہ کے بغیرصلاۃنہیں ہوتی'کی تفسیر یہ کی ہے کہ یہ حکم اس شخص کے لیے ہے جو اکیلے پڑھ رہا ہو۔ان سب کے باوجود احمدبن حنبل نے امام کے پیچھے سورئہ فاتحہ پڑھنے ہی کو پسندکیا ہے اورکہاہے کہ آدمی سورئہ فاتحہ کو نہ چھوڑے اگرچہ امام کے پیچھے ہو۔
تشریح :
۱؎ : یہ جابر رضی اللہ عنہ کا اپناخیال ہے ، اعتبارمرفوع روایت کا ہے نہ کہ کسی صحابی کی ایسی رائے کا جس کے مقابلے میں دوسرے صحابہ کی آراء موجودہیں وہ آراء حدیث کے ظاہرمعنی کے مطابق بھی ہیں۔
۱؎ : یہ جابر رضی اللہ عنہ کا اپناخیال ہے ، اعتبارمرفوع روایت کا ہے نہ کہ کسی صحابی کی ایسی رائے کا جس کے مقابلے میں دوسرے صحابہ کی آراء موجودہیں وہ آراء حدیث کے ظاہرمعنی کے مطابق بھی ہیں۔