أَبْوَابُ تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب وَمِنْ سُورَةِ هُودٍ حسن حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ أَخْبَرَنَا قَيْسُ بْنُ الرَّبِيعِ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَوْهَبٍ عَنْ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ عَنْ أَبِي الْيَسَرِ قَالَ أَتَتْنِي امْرَأَةٌ تَبْتَاعُ تَمْرًا فَقُلْتُ إِنَّ فِي الْبَيْتِ تَمْرًا أَطْيَبَ مِنْهُ فَدَخَلَتْ مَعِي فِي الْبَيْتِ فَأَهْوَيْتُ إِلَيْهَا فَتَقَبَّلْتُهَا فَأَتَيْتُ أَبَا بَكْرٍ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ قَالَ اسْتُرْ عَلَى نَفْسِكَ وَتُبْ وَلَا تُخْبِرْ أَحَدًا فَلَمْ أَصْبِرْ فَأَتَيْتُ عُمَرَ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ فَقَالَ اسْتُرْ عَلَى نَفْسِكَ وَتُبْ وَلَا تُخْبِرْ أَحَدًا فَلَمْ أَصْبِرْ فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ فَقَالَ أَخَلَفْتَ غَازِيًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فِي أَهْلِهِ بِمِثْلِ هَذَا حَتَّى تَمَنَّى أَنَّهُ لَمْ يَكُنْ أَسْلَمَ إِلَّا تِلْكَ السَّاعَةَ حَتَّى ظَنَّ أَنَّهُ مِنْ أَهْلِ النَّارِ قَالَ وَأَطْرَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَوِيلًا حَتَّى أَوْحَى اللَّهُ إِلَيْهِ وَأَقِمْ الصَّلَاةَ طَرَفَيْ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِنْ اللَّيْلِ إِلَى قَوْلِهِ ذِكْرَى لِلذَّاكِرِينَ قَالَ أَبُو الْيَسَرِ فَأَتَيْتُهُ فَقَرَأَهَا عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَصْحَابُهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلِهَذَا خَاصَّةً أَمْ لِلنَّاسِ عَامَّةً قَالَ بَلْ لِلنَّاسِ عَامَّةً قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ وَقَيْسُ بْنُ الرَّبِيعِ ضَعَّفَهُ وَكِيعٌ وَغَيْرُهُ وَأَبُو الْيَسَرِ هُوَ كَعْبُ بْنُ عَمْرٍو قَالَ وَرَوَى شَرِيكٌ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ هَذَا الْحَدِيثَ مِثْلَ رِوَايَةِ قَيْسِ بْنِ الرَّبِيعِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي أُمَامَةَ وَوَاثِلَةَ بْنِ الْأَسْقَعِ وَأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ
کتاب: قرآن کریم کی تفسیر کے بیان میں سورہ ہودسے بعض آیات کی تفسیر ابوالیسر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : ایک عورت میرے پاس کھجور خرید نے آئی، میں نے اس سے کہا: (یہ کھجور جو یہاں موجود ہے جسے تم دیکھ رہی ہو)اس سے اچھی اور عمدہ کھجور گھر میں رکھی ہے۔ چنانچہ وہ بھی میرے ساتھ ساتھ گھر میں آگئی ، میں اس کی طرف مائل ہوگیااور اس کوچوم لیا ،تب ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آکر ان سے اس واقعہ کا ذکر کیا، انہوں نے کہا: اپنے نفس (کی اس غلطی) پر پردہ ڈال دو، توبہ کرو دوسرے کسی او ر سے اس واقعہ کا ذکر نہ کرو، لیکن مجھ سے صبر نہ ہوسکاچنانچہ میں عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ان سے بھی اس (واقعہ) کا ذکر کیا، انہوں نے بھی کہا: اپنے نفس کی پردہ پوشی کرو، تو بہ کرو اور کسی دوسرے کو یہ واقعہ نہ بتاؤ۔ (مگر میراجی نہ مانا) میں اس بات پر قائم نہ رہا،اور رسول اللہ ﷺ کے پاس آکرآپ کو بھی یہ بات بتادی۔ آپ ﷺ نے فرمایا:' کیا تم نے ایک غازی کی بیوی کے ساتھ جو اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے نکلا ہے اس کی غیر موجود گی میں ایسی حرکت کی ہے؟آپ کی اتنی بات کہنے سے مجھے اتنی غیرت آئی کہ میں نے تمنا کی کہ کاش میں اس سے پہلے ایمان نہ لایا ہوتا بلکہ اب لاتا اسے خیال ہواکہ وہ تو جہنم والوں میں سے ہوگیا ہے رسول اللہ ﷺ (سوچ میں) کافی دیر تک سرجھکائے رہے یہاں تک کہ آپ پر بذریعہ وحی آیت { وَأَقِمِ الصَّلاَۃَ طَرَفَیَ النَّہَارِ وَزُلَفًا مِنَ اللَّیْلِ إِنَّ الْحَسَنَاتِ یُذْہِبْنَ السَّیِّئَاتِ ذَلِکَ ذِکْرَی لِلذَّاکِرِینَ } نازل ہوئی۔ابوالیسر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: (جب) میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا تو آپ نے مجھے یہ آیت پڑھ کر سنائی۔ صحابہ نے کہا: اللہ کے رسول! کیا یہ (بشارت) ان کے لیے خاص ہے یاسبھی لوگوں کے لیے عام ہے؟ آپ نے فرمایا:' نہیں،بلکہ سبھی لوگوں کے لیے عام ہے ' ۱؎ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- قیس بن ربیع کو وکیع وغیرہ نے ضعیف قراردیا ہے۔ اورابوالیسر کعب بن عمرو رضی اللہ عنہ ہیں،۳- شریک نے عثمان بن عبداللہ سے یہ حدیث قیس بن ربیع کی روایت کی طرح روایت کی ہے،۴- اس باب میں ابوامامہ اور واثلہ بن اسقع اورانس بن مالک رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔